موٹرسائیکل سوار اب کار سوار بن سکیں گے: وزیر خزانہ
وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''موٹرسائیکل سوار اب کار سوار بن سکیں گے‘‘ بلکہ وہ بجٹ کی خوشی میں ٹیکسی پر بھی سوار ہو سکیں گے۔ بیشک زیادہ دور نہ جائیں، اس کے علاوہ کسی کار سوار سے لفٹ بھی لے سکیں گے لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ موٹرسائیکل کو بھی ڈگی میں رکھ لیں کیونکہ کوئی پتا نہیں کہ کار سوار انہیں کہاں اتار دے اور اسے بسوں وغیرہ پر دھکے کھانا پڑیں جبکہ ٹیکسی پر سوار ہونے کے لیے جیب میں اس کا کرایہ ہونا بھی ضروری ہے اور ٹیکسی میں اتنی ہی دور جایا جا سکے گا جتنی دور کا کرایہ ان کی جیب میں ہوگا، ویسے بجٹ میں ایسی فضول خرچی کی تلقین ہرگز نہیں کی گئی ۔ آپ اگلے روز بجٹ پیش کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بجٹ میں ریلیف، کرپشن کے آگے بند باندھ دیا:فردوس
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''وفاقی بجٹ میں ریلیف، کرپشن کے آگے بند باندھ دیا‘‘ اگرچہ وفاقی بجٹ پر بیان دیتا کوئی وفاقی وزیر ہی اچھا لگتا ہے لیکن اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے بعد سارے اختیارات صوبوں کے پاس آ گئے ہیں، خاص طور پر بیان دینے کا اختیار، علاوہ ازیں، کسی چیز کے آگے بند باندھنا بھی ایک عارضی سا ہی علاج ہے کیونکہ بند تو اکثر ٹوٹتے رہتے ہیں اور انہیں دوبارہ باندھنا پڑتا ہے حالانکہ انہیں ایک بار ہی پوری طرح کس کر باندھ لینا چاہیے اگرچہ پورے بجٹ میں بظاہر کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس سے کرپشن کے آگے بند باندھنے کا کوئی اشارہ ملتا ہو اور اس کے آگے بند باندھا بھی کیسے جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دے رہی تھیں۔
عوام دشمن بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے: شہباز شریف
نواز لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ‘ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام دشمن بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے‘‘ اگرچہ ہائوس میں حکومت کی اکثریت ہے اور وہ بجٹ پاس بھی کروا لے گی لیکن آخر کہنے میں کیا ہرج ہے کیونکہ کچھ باتیں صرف کہنے کے لیے ہوتی ہیں جبکہ سیاستدانوں کی تو ہر بات کہنے کے لیے ہوتی ہے، اگرچہ ہر بات کہنے کے قابل نہیں ہوتی لیکن وہ اگر اکثر اوقات کام بھی تو ایسے کرتے ہیں جو کرنے کے قابل نہیں ہوتے لیکن قوم کی خاطر ایسا کرنا پڑتا ہے اور جو کام قوم کی خاطر کیے جاتے ہیں بسا اوقات قوم کو ان کی کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی اور وہ ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے۔ آپ اگلے روز بجٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
جلسے بتائیں گے کہ لوگ اب بھی پی ڈی ایم کے
ساتھ اور حکومت کی رخصتی چاہتے ہیں: فضل الرحمن
پی ڈی ایم کے چیئر مین اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''جلسے بتائیں گے کہ لوگ اب بھی پی ڈی ایم کے ساتھ اور حکومت کی رخصتی چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ پہلے والے جلسوں کو یہ بتانا یاد نہ رہا تھا اور انسان سے بھول چوک ہو ہی جاتی ہے اس لیے جلسوں کے کان ذرا کھینچے ہیں کہ جو کرنے والا کام تھا انہوں نے کیا ہی نہیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم بھی تقریباً تتر بتر ہو چکی ہے اور حکومت کی رخصتی کو بھی لوگ بھول بھلا چکے ہیں اور درمیان میں ہم خود بھی اس مطالبے سے دستبردار ہو چکے تھے اور حکومت کی رخصتی کے ہمارے نعروں کو لوگ بھی بھلا چکے ہیں اوپر سے پیپلز پارٹی اور اے این پی نے ہمیں دھوکہ دیا جس پر ہم انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ آپ اگلے روز عوامی شاعر سلمان گیلانی کی وفات پر تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مصنوعی بجٹ کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''مصنوعی بجٹ کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں‘‘ بلکہ اس میں سارے کے سارے آسمانی حقائق کے حوالے سے ہیں کیونکہ زیادہ تر وعدوں کے چاند ستارے ہی دکھائے گئے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی علاقہ نہیں ہے اس لیے ہماری درخواست ہے کہ بجٹ دوبارہ پیش کیا جائے کیونکہ اس بجٹ کو سمجھنے کے لیے آسمان پر جانا ضروری ہے جس کے لیے ہم ہرگز تیار نہیں ہیں کیونکہ ابھی ہم نے زندگی کی کئی اور بہاریں اور خزائیں دیکھنی ہیں جس کے لیے عینکوں کے نمبر بھی تبدیل کروا لیے گئے ہیں تا کہ اچھی طرح نظر آ سکیں۔ آپ اگلے روز منگورہ سے بجٹ پر اپنا رد عمل جاری کر رہے تھے۔
بیروزگاری میں اضافہ تبدیلی کا اصل چہرہ ہے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ''بیروزگاری میں اضافہ عمران خان کی تبدیلی کا اصل چہرہ ہے‘‘ اور ہمارے لیے یہ باعثِ صد اطمینان ہے کیونکہ ابھی تک ہمارا اصل چہرہ ہی سامنے آیا تھا بلکہ آئے روز کوئی نہ کوئی مزید چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور یہ سب احتساب اور دوسرے اداروں کا کیا دھرا ہے جو کارروائیاں کر کر کے نہیں تھکے لیکن ہمیں تھکا تھکا کر نڈھال کر دیا ہے حالانکہ ہم اس چہرے پر اب تک صحیح معنوں میں جلوہ سامانی کرتے چلے آئے تھے اور اب اصل چہرہ دیکھ کر لوگ حیران تو نہیں ہوئے، تھوڑا پریشان ضرور ہو گئے ہیں کیونکہ اصل چہرہ کچھ اتنا حسین و جمیل نہیں ہوتا جبکہ لوگ نقلی چہرے ہی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں اقتدار جاوید کی نظم:
رات کا پھول
مٹی کے سینے سے اُگتا، اسے چیرتا/ آ کے نکلا ہے شاعر کے دل میں/ اٹھاتا ہوا اک نئی رُت، بناتا ہوا/ اک جگہ مستقل اپنے شاعر کا دل!/ ایسے نکلا ہے مٹی سے/ بادل سے جس طرح بوندیں نکلتی ہیں/ دریا سے بے تاب لہریں نکلتی ہیں جس طرح/ سورج کی تہہ دار تہہ بیٹھ جاتی ہے/ فوارے کی طرح اخراج کرتی ہیں/ تیروں کی مانند پابند کرنیں/ نکلتے ہی جس طرح شاعر کے دل سے/ زمانے کے بیہودہ اشخاص!/ کھلتا نہیں کرۂ باد پر،کرۂ ارض پر/ کوئی چُنتا نہیں موسمی رنگ/ سجتا نہیں دوسرے پودوں کے سنگ/ سرما کی بارش سے گرما کی زرخیزی سے بچتا/ کھلتا ہے اک خاص میعاد پر/ اس دند دندے کو دکھتا نہیں پھول/ اس کی نگاہیں ہیں میوؤں بھری راکھ پر/ ایک شاداب خطے کی جانب لپکتی/ جوئے آب پر، نذر کی ڈالی آبی ذخیرے پہ/ گوڈر پہ رنگوں کے اسباب پر/ دیکھ سکتا نہیں پھول کا تاج، اس کا کلسِ دائمی/ دائمی سرخ رنگ!/ خواب و خور میں مگن ساتھ والے/ احاطے میں جو سوتے ہیں/ دیکھ سکتے نہیں پتیوں کا کبھی ایک حالت میں جڑنا/ فقط اپنے مرکز کو مُڑنا/ نہیں دیکھ سکتے ہیں یہ پھول/ لوگوں کو المیے ان ہیل کرتے/ دعائوں سے بھر بھر کے باہر نکلتے ہوئے/ گلفروشوں کے آہستہ آہستہ سانسوں سے/ ہلتا ہے یہ رات کا پھول/ اُگتا ہے شاعر کی نیندوں کے/ گہرے اندھیروں میں چپ چاپ/ کھلتا ہے یہ پھول!!
آج کا مطلع
ملوں اُس سے تو ملنے کی نشانی مانگ لیتا ہوں
تکلف برطرف پیاسا ہوں پانی مانگ لیتا ہوں