"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن، ماہنامہ تخلیق اور بھارت سے صابر

جمہوریت سے نفرت کرنے والوں کا
ہر قدم پر مقابلہ کریں گے: زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت سے نفرت کرنے والوں کا ہر قیمت پر مقابلہ کریں گے‘‘ جبکہ جمہوریت سے تو محبت کرنی چاہئے کیونکہ جو جمہوریت ہمارے ہاں رائج ہے اور جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں‘ خوشحالی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے اور بقول شخصے‘ جس کے پاس موٹر سائیکل تھی وہ جمہوریت کے فیض سے کار سوار ہے اور دنیا یہ دیکھ چکی ہے کہ جمہوریت کے ثمرات سے اعراض برتنے والے ابھی تک وہیں پر پھنسے ہوئے ہیں جہاں پر پہلے تھے اور جمہوریت سے محبت کرنے والوں کے اثاثہ جات کا حساب کتاب کرنے سے احتساب والے بھی ایک طرح سے لاچار ہو چکے ہیں اور خواہ مخواہ ان کاموں میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز بے نظیر بھٹو شہیدکی سالگرہ کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
دُم دبا کر بھاگنا مسلم لیگ اور پیپلز
پارٹی کا شیوہ ہے: حلیم عادل شیخ
پی ٹی آئی رہنما اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ ''دُم دبا کر بھاگنا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا شیوہ ہے‘‘ حالانکہ اگر دُم دبائے بغیر ہی اچھی طرح بھاگا جا سکتا ہے تو دُم دبانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ بھاگتے وقت اسے مسلسل دبائے رکھنا ویسے بھی دُم کے ساتھ سراسر زیادتی ہے کیونکہ اعضا کو خواہ مخواہ کی زحمت دینا کسی طرح سے بھی درست نہیں ہو سکتا جبکہ دُم صرف خوبصورتی اور جسم کا توازن برابر رکھنے کیلئے ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کا توازن خاصی حد تک بگڑا ہوا ہے، اس لئے کم از کم وہ مستقبل میں احتیاط روا رکھیں اور بھاگتے وقت دُم نہ دبائیں۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
بات کس سے کریں، صلاحیت ہی نہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''بات کس سے کریں، صلاحیت ہی نہیں‘‘ کیونکہ اگر صلاحیت ہوتی تو اتنی تاریخیں دینے، حکومت گرانے اور وزیراعظم کے استعفے کا جو مطالبہ کیا کرتے تھے اُس میں کامیاب ہو جاتے، حتیٰ کہ اب تھک ہار اور نڈھال ہو کر بیٹھے ہیں اور سمجھ ہی نہیں آتا کہ اب کیا کریں اور لاچار ہو کر بالآخر اے پی سی کا ڈول ڈالا ہے اور خدشہ یہی ہے کہ یہ ڈول بھی پانی سے خالی ہی آئے گا ۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت آٹا، چینی کے بعد ویکسین بھی کھا گئی: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی حکومت آٹا چینی اور دوائی کے بعد عوام کی ویکسین بھی کھا گئی‘‘ کیونکہ ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ ویکسین لگائی جاتی ہے، کھائی نہیں جاتی، اور جو چیز کھانے والی ہے اس کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں ہے یا اپنی نااہلی کی وجہ سے کھا نہیں سکتے جبکہ ہم نے صرف کھانے والی چیز ہی پر اکتفا کیا اور دوسری چیز کو آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور اس کے بعد جو مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ غلط خوری نہیں بلکہ بسیار خوری کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ کھانے والی چیز اگر حد سے بڑھ کر لذیذ ہو تو بسیار خوری ایک قدرتی امر ہے اور آدمی اگر چاہے بھی تو کھانے سے ہاتھ نہیں کھینچ سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور سے معمول کا ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
ماہنامہ تخلیق
اسے لاہور سے سونان اظہر جاوید شائع کرتے ہیں، زیر نظر شمارہ مارچ 2021ء کا ہے، اور اسے ملک کے اہم تخلیق کاروں کا تعاون شروع سے ہی حاصل چلا آ رہا ہے۔ موجودہ شمارے کے لکھنے والوں میں، نظم و نثر سمیت، حسن عسکری کاظمی، خالد اقبال یاسر، پرویز بزمی، آفتاب خان، غلام حسین ساجد، مسلم شمیم، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، سیف سرونجی (انڈیا) شہزاد نیّر، شیبہ طراز، سمیع آہوجہ، عطیہ سید، حنیف باوا، انور شعور، امین راحت چغتائی، سلطان سکون، صابر ظفر، نجیب احمد، آصف ثاقب، اسحاق وردگ، امجد بابر، جسارت خیالی، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر امجد پرویز، سلیم شہزاد، بشریٰ رحمن، سید تحسین گیلانی، ڈاکٹر بدر منیر، ڈاکٹر محسن مگھیانہ، نسیم سحر، آغا گُل، قصیر نجفی، جمیل احمد عدیل، سیما پیرویز، اور ناصر علی سید نمایاں ہیں جبکہ سرائیکی گوشہ اور پنجاب رنگ کے علاوہ ڈاکٹر رشید امجد نمبر کے لئے پینل کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
اور‘ اب آخر میں بھارت سے صابر کی نظم:
اور اچانک
کسی مصروف دن کے آغاز پر
رُک جاتی ہیں گھڑی کی سوئیاں
آگے پیچھے ہو جاتے ہیں سارے غیر اہم کام
ڈسٹرب ہو جاتا ہے اچھا خاصا موڈ
اور اچانک ایک نظم جنم لیتی ہے
بھنبھناہٹ سُن کر شہد کی مکھی کی
سٹیچو ہو جاتا ہے منڈیر پر
کیٹ واک کرتا گرگٹ
دم سادھے تجسس سے تاکنے لگتا ہے تماش بین
لمحہ بھر میں کرتب ختم ہو جاتا ہے
اور اچانک ایک نظم جنم لیتی ہے
مکمل ہو جاتی ہے
کلائمکس کو پہنچے ناول کے مطالعے میں
عقب کی گلی سے کمرے میں در آتی سرسراہٹ
اور کسی رینگنے والے جانور کا خیالی پیکر
کھڑکی سے جھانکنے پر دکھائی دیتا ہے
پیشاب کرتا نشے میں دُھت مل مزدور
اور اچانک ایک نظم جنم لیتی ہے
ڈھل جاتا ہے معمول کے مطابق دن
نیا نہیں ہوتا کہیں کچھ
نہ کوئی نئی اُمید نہ کوئی نیا خدشہ
مگر گھومنے لگتا ہے مہینوں سے جام
ٹیبل فین
پھڑ پھڑاتا ہے دیوار کی صلیب پر لٹکا کیلنڈر
اور ایک نظم جنم لیتی ہے
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں‘ ظفرؔ
کہاں سے دور ہے دنیا، کہاں سے دور نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں