حکومت 3 سال سے مسلسل جھوٹ بول رہی : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت 3 سال سے مسلسل جھوٹ بول رہی ہے‘‘ اور یہ بڑے دل گردے کا کام ہے کیونکہ جھوٹ ہر کوئی بولتا ہے لیکن مسلسل نہیں بلکہ درمیان میں معمولی وقفہ بھی رکھا جاتا ہے‘ سچ بولنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ تازہ دم ہو کر مزید اور زور دار جھوٹ بولا جا سکے جبکہ کئی جھوٹ سفید بھی ہوتے ہے یعنی صاف ستھرے اور دُھلے دُھلائے، عُرفِ عام میں انہیں سیاسی بیان بھی کہا جاتا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ مسلسل اور چھوٹے موٹے جھوٹ بولنے کے بجائے ٹھہر ٹھہر کر اور ذرا تگڑے جھوٹ بولا کرے اور ہم سے اتنا ہی سیکھ لے تو بڑی بات ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی عہدیداروں سے ملاقات کر رہے تھے۔
لباس پر وزیراعظم کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''لباس پر وزیراعظم کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘‘ البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کام کس نے کیا ہے کیونکہ بیان تو ہو بُہو وہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ اصل میں کچھ اور ہوگا جبکہ کوئی شخصیت اپنے بیان سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی، اس لیے اس کا ایسا ہر بیان توڑا اور مروڑا ہوا لگتا ہے حالانکہ کسی بیان کو مروڑا تو جا سکتا ہے توڑا نہیں جا سکتا، جس طرح کان صرف مروڑا جا سکتا ہے توڑا نہیں؛ چنانچہ اب ہم نے سوچا ہے کہ حکومت کے ہر بیان کے ساتھ یہ وضاحت بھی جاری کی جائے کہ یہ اصلی حالت میں ہے یا توڑا مروڑا ہوا۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
حکومت نے 130 ارب خفیہ کھاتے میں
رکھے، سب اپنا محاسبہ کریں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت نے 130 ارب خفیہ کھاتے میں رکھے، سب اپنا محاسبہ کریں‘‘ جبکہ ہمارا کوئی خفیہ کھاتہ نہیں تھا بلکہ جتنا کچھ جمع ہوتا تھا‘ مختلف طریقوں سے اسے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی اور جس کا اندازہ اندرون و بیرونِ ملک اثاثوں سے لگایا جا سکتا ہے، بیشک ملکی اثاثے حکومت نیلام کرنا چاہتی ہے لیکن یہ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں جبکہ بیرونِ ملک اثاثوں تک حکومت کی پہنچ ہی نہیں اور وہ ٹامک ٹوئیاں مار کر فضول میں اپنا وقت ضائع کر رہی ہے حالانکہ وقت کی قدر کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
شہباز شریف مفرور بیٹوں کو پیش کریں: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف مفرور بیٹوں کو پیش کریں‘‘ جبکہ الٹا وہ خود لندن جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر حکومت ذرا سی بھی کوتاہی کا مظاہرہ کرتی تو وہ اب تک لندن جا چکے ہوتے، اور اگر وہ انہیں پیش نہیں کرنا چاہتے تو نواز شریف کے بیٹوں کی طرح انہیں برطانوی شہریت دلا دیں؛ البتہ شہباز شریف کی دُور اندیشی واقعی قابلِ ستائش ہے جو انہیں وقت سے پہلے ہی لندن بھجوا دیا اور ایک زیرک سیاسی رہنما کو کم از کم اتنا تو دور اندیش ہونا ہی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک ٹویٹ کے ذریعے اظہار خیال کر رہے تھے۔
وفاق سندھ کو بھی بڑے منصوبے دے: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''وفاق پنجاب کی طرح سندھ کو بھی بڑے منصوبے دے‘‘ بلکہ منصوبوں کو ہم نے کیا کرنا ہے، ہمیں پیسے دیے جائیں، منصوبے ہم خود بنا لیں گے حتیٰ کہ منصوبوں کے بغیر بھی وہ پیسے ایسے خرچ کر کے دکھا ئیں گے کہ دنیا حیران ہو کر رہ جائے گی؛ اگرچہ اس میں بڑی محنت، عرق ریزی اور ہنرمندی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم ان اوصاف سے بہرہ ور ہیں اور وہ پیسے براہِ راست عوام پر ہی خرچ ہوں گے جن کی فہرستیں ہم نے تیار کر رکھی ہیں، آزمائش شرط ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سہ ماہی املاک
یہ مردان سے اکیسویں صدی کا پہلا اردو ادبی جریدہ ہے جو ادبیاتِ خیبرپختونخوا کا ترجمان ہے جس کے سرپرست اعلیٰ شاہ روم خاں ولی اور مدیر اعلیٰ وہاں کے ممتاز شاعر ڈاکٹر اسحاق وردگ ہیں جبکہ مدیر عزیز عادل ہیں۔ حصہ نثر کے لکھنے والوں میں رضوان الحق، انیل ارشاد خان، عثمان منور، گوہر رحمن، گہر مردانوی، خالد سہیل ملک، راج محمد آفریدی، کامران دانش، نازیہ نزی اور نگہت غفار شامل ہیں جبکہ شعری تخلیقات میں شاہ روم ولی، نعیم رضا بھٹی، نوشابہ ہاشمی، وحید احمد، شبیر نازش، کامران سوہدردی، اسحاق وردگ، شہزاد نیر، ہدایت سائر، زین العابدین مخلص، محمد عبدالعزیز، گل جہان، جمیل قمر، محمد عباس عون، دانیال طریر، امین اڈیرائی، لطیف ساجد، مقصود وفا، احمد عطا اللہ، قمر رضا شہزاد، افضل گوہررائو،دلاور علی آزر، عمران عامی اور ناصر علی سید نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ تبصرے میں اور محمد اکرم جاذب کا گوشہ اور پسِ سرورق صاحبِ گوشہ کی تصویر۔
اور‘ اب آخر میں شفقت حسین کی غزل:
جُرمِ الفت کے سزاوار بنے پھرتے ہیں
ہم جو آوارہ و بیکار بنے پھرتے ہیں
میں کروں کس سے یہاں تیری جفائوں کا گلہ
سب یہاں تیرے طرفدار بنے پھرتے ہیں
اب وہ حالت ہے نہ ہیں پہلے سے حالات مرے
ان کے آنے کے بھی آثار بنے پھرتے ہیں
ان کے ہوتے ہوئے دشمن کی ضرورت ہی نہیں
جو تری فوج کے سالار بنے پھرتے ہیں
جن کو ہم پھول سمجھتے تھے کلی جانتے تھے
اب وہی تیر و تلوار بنے پھرتے ہیں
رات بھر پاتے ہیں میخانوں میں جو لطف و سرور
دن کو وہ صاحبِ کردار بنے پھرتے ہیں
ان کی دستار کے ہر پیچ میں ہے مکر و فریب
جو ہمارے یہاں سردار بنے پھرتے ہیں
جس کا ہر شخص ہے دیوانہ یہاں پر شفقتؔ
ہم بھی اس کے ہی طلبگار بنے پھرتے ہیں
آج کا مقطع
یادوں کو ظفرؔ لگا کر تالا
چابی دریا میں پھینک آئے