جہاں شہباز شریف ہوں وہاں میری ضرورت نہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''جہاں شہباز شریف ہوں وہاں میری ضرورت نہیں‘‘ اور اسی طرح جہاں میں ہوں وہاں شہباز شریف کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پارٹی کو ایک ہی لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سیاسی جنگ میں پرانے اور ازکارِ رفتہ ہتھیار کام نہیں دے سکتے، ویسے بھی یہ وقت ان کے آرام کرنے کا ہے ۔آپ اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ہم نے صوبے کی سمت درست کر دی ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ہم نے صوبے کی سمت درست کر دی ہے‘‘ اور یہ ذرا اندازے سے ہی درست کی ہے کیونکہ ہم سارے کام اندازے سے ہی کر رہے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبہ اس سمت میں پہنچتا کہاں ہے کیونکہ اگر کسی غلط مقام کی طرف جاتا نظر آیا تو اس کی سمت کسی اور طرف کو موڑ دیں گے کیونکہ ہمارے پاس اندازوں کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اس کے انبار لگے پڑے ہیں اور اپوزیشن جو اب اِدھر اُدھر ماری ماری پھر رہی ہے، اگر اسے کسی اندازے کی ضرورت ہو تو ہم جذبۂ خیر سگالی کے تحت اسے بھی یہ مہیا کر سکتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں ملکی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ آپ اگلے روز چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی کی تقریبِ حلف وفاداری میں شریک تھے۔
عمران خان سیاست میں غیر ضروری ہو چکے ہیں: رانا ثناء اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب اور مسلم لیگ نون کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان سیاست میں غیر ضروری ہو چکے ہیں‘‘ جبکہ ہماری ضرورت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ اب ملک میں ایک بار پھر اتنا سرمایہ اکٹھا ہو گیا ہے کہ اسے ٹھکانے لگانے کے لیے تجربہ کار آدمیوں کی ضرورت ہے اور کئی پاپڑ اور فالودہ فروش امید بھری نظروں سے اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب ان کے اکائونٹس میں کروڑوں، اربوں روپے کوئی اللہ کا بندہ اپنے آپ ہی ڈال جاتا تھا اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی تھی جبکہ ان میں کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے ہزار کا نوٹ بھی کم کم ہی دیکھا ہوتا تھا۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
مریم اور شہباز شریف کا جھگڑا آگے بڑھے گا: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''مریم اور شہباز شریف کا جھگڑا آگے بڑھے گا‘‘ جس کے لیے ہم بھی دن رات دعائیں مانگ رہے ہیں، شاید اسی سے کوئی خیر کا پہلو ہمارے لیے بھی نکل آئے ورنہ تو کسی طرف سے بھی اچھی خبریں نہیں آ رہیں، اگرچہ ہم دن بھر یہی کچھ کرتے رہتے ہیں لیکن نتیجہ الٹ ہی نکلتا ہے؛ تاہم مجھے یقین ہے کہ ان کا جھگڑا آگے بڑھنے سے ہمارے مسائل میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے اس لیے ان دونوں کو بہادری سے کام لے کر اس جھگڑے کو انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
حکمرانوں کے پاس دو چوائسز ہیں‘ حکومت چلا
لیں یا احتساب کر لیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے پاس دو چوائسز ہیں، حکومت چلا لیں یا احتساب کر لیں‘‘ کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام صحیح طور سے ہو سکتا ہے؛ چنانچہ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ حکومت ہی چلاتے رہیں کیونکہ ہم نے اب اسے گرانے کا ارادہ بھی ترک کر دیا ہے جبکہ احتساب تو اپنے آپ ہی چلتا رہتا ہے جس کا گواہ ہمارا شاندار ملکی ماضی بھی ہے اوریہ کسی شریف آدمی کو پریشان کیے بغیر پوری شرافت سے اپنا کام کرتا رہتا ہے اور جو اول تو شرفا کے خلاف کوئی فائل کھولتا ہی نہیں تھا اور اگر کھولے بھی تو اسے غیر ضروری قرار دے کر خود ہی بند بھی کر دیتا تھا، اس سے زیادہ کارکردگی اور کیا ہو سکتی ہے؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مدحت کدہ
یہ ہمارے دوست الیاس بابر اعوان کا نعتیہ مجموعہ ہے۔ یہ ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو 63 نعتوں پر مشتمل ہے۔ پسِ سرورق ہمارے ایک اور دوست اور نامور شاعر افتخار عارف کی تحسینی تحریر ہے جبکہ اندرونِ سرورق صبیح رحمانی (کراچی) اور محمد شہزاد مجددی کی تحریریں ہیں انتساب حضور ختمی مرتبت آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریمی کے نام ہے۔ دیباچے کاشف عرفان، ڈاکٹر فرخ ندیم اور سرور حسین نقشبندی کے قلم سے ہیں۔ چند اشعار:
کہاں کے ہم ہیں شاعر کیا سخن کاری ہماری
مدینے لے کے جائے گی تو لاچاری ہماری
نبیؐ کا ذکر جب سے ہم سفر رکھا ہے ہم نے
ہر اک آسانی کرتی ہے طرف داری ہماری
بدل جاتے ہیں طیبہ کی زمیں پر جا کے معنی
ہمارے اشک بن جائیں گے سرشاری ہماری
اور‘ اب آخر میں پروفیسر نواب نقوی کی غزل:
جسے گماں تھا جسے یقیں تھا وہ میں نہیں تھا
ابھی ابھی جو یہیں کہیں تھا وہ میں نہیں تھا
میں تیرے پیکر میں کر رہا تھا تلاش اپنی
جو تیرے دل کے بہت قریں تھا وہ میں نہیں تھا
ترا کرم تھا کہ نعمتِ غم مجھے عطا کی
جسے گلہ تھا دلِ حزیں تھا وہ میں نہیں تھا
میں دل تپیدہ ، دہن دریدہ، سو وہ جو کل شب
مغنیٔ صوتِ دلنشیں تھا وہ میں نہیں تھا
تری تجلی کی اک جھلک ہی مجھے بہت تھی
ہلاکِ زہراب انگبیں تھا وہ میں نہیں تھا
نمائشِ داغِ سجدہ پر ہوں بڑا پشیماں
وہ شخص جو سربسر جبیں تھا وہ میں نہیں تھا
مرا شرف تھا درِ علی کا فقیر ہونا
گدا گر کوئے آن وایں تھا وہ میں نہیں تھا
آج کا مطلع
شکوہ و شکر نہ کچھ عرض گزاری رہے گی
غیر مشروط محبت ہے یہ جاری رہے گی