"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور اس ہفتے کی تازہ غزل

بلاول نے امریکا جانے سے متعلق
مشورہ نہیں کیا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''بلاول نے امریکا جانے سے متعلق مشورہ نہیں کیا‘‘ کیونکہ وہاں جانا بالکل بے سود ہوگا جبکہ کئی سال پہلے میں نے بھی اس حوالے سے درخواست کی تھی لیکن کچھ دن تک لارا لگانے کے بعد معذرت کر لی گئی کہ ہم ایسے معاملات میں اس طرح دخل اندازی نہیں کرتے حالانکہ یہ بات شروع میں بھی کہہ سکتے تھے، اس لئے بلاول اگر امریکا جانے سے پہلے میرے ساتھ مشورہ کرتے تو میں انہیں منع کر دیتا کہ خواہ مخواہ وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے ارکانِ قومی اسمبلی کی تعداد بڑھانے کی کوشش کریں جو اُن کے بس کا کام ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز مدرسہ سراج العلوم مانسہرہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آئندہ دو سال ڈلیور کرنے کے ہیں: بابر اعوان
وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابراعوان نے کہا ہے کہ ''آئندہ دو سال ڈلیور کرنے کے ہیں‘‘ جبکہ گزشتہ تین سال ڈلیور نہ کرنے کے تھے اورہم ہر کام اس کے مناسب وقت پر ہی کرنے میں یقین رکھتے ہیں، اس لئے تین سال تک ڈلیور کرنے کے کام کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا کیونکہ وہ سال ڈلیورکرنے کے لئے تھے ہی نہیں، اگرچہ ڈلیور نہ کرنے کے علاوہ بھی گزشتہ تین سال میں کچھ نہیں کیا گیا کیونکہ خدشہ تھا کہ اگر کچھ کیا گیا تو وہ کہیں ڈلیوری میں ہی شمار نہ ہو جائے اور اس حسنِ احتیاط پر ہم داد کے مستحق ہیں کہ کام کرنے اور نہ کرنے کا تناسب اور توازن ہم نے برقرار رکھا ہے۔ آپ اگلے روز رکن قومی اسمبلی طارق صادق کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کے دل میں نواز شریف کی خدمت
کی تختیاں لگی ہوئی ہیں: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عوام کے دل میں نواز شریف کی خدمت کی تختیاں لگی ہوئی ہیں‘‘ اور ان تختیوں میں خاطر خواہ ورائٹی موجود ہے اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ عوام کے دل میں اور کسی چیز کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں بچی جبکہ لندن فرار کی تختی ان سب سے الگ ہے، ان کے علاوہ فالودہ اور پاپڑ فروشوں سے لے کر ڈرائیوروں اور چپڑاسیوں کے اکائونٹس تک کے دل میں خصوصی تختیاں آویزاں ہیں جو ان تختیوں کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں؛ اگرچہ ان کے اکاؤنٹس میں پیسے چند دن ہی رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
شریف خاندان آج بھی چونا لگانے کی
تاک میں رہتا ہے: فیاض الحسن چوہان
وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''شریف خاندان آج بھی عوام کو چونا لگانے کی تاک میں رہتا ہے‘‘ جبکہ ساتھ ساتھ اسے کتّھا بھی لگانا چاہیے تھا کیونکہ صرف چونا لگانے سے پان کڑوا ہو جاتا ہے جبکہ ہم چونا اور کتّھا دونوں دونوں لگا کر پان پیش کرتے ہیں اور الائچی سپاری الگ اور میٹھا پان علیحدہ حاضر کیا جاتا ہے، اس لئے شریف خاندان کو چاہیے کہ اگر پان فروشی کرنی ہی ہے تو اس کے سارے لوازمات کا خیال رکھے جبکہ ہم نے ا س سلسلے میں کبھی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا؛ البتہ کچھ حضرات اس ضمن میں زیادہ احتیاط روا نہیں رکھتے اور جو پان وہ بیچ رہے ہیں وہ زیادہ تسلی بخش نہیں ہیں‘ اس لیے عوام کو بھی چاہیے کہ نقالوں سے ہوشیار رہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے حسبِ معمول ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
احسن اقبال نے سپورٹس سٹی بناتے
وقت کروڑوں کا نقصان پہنچایا: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''احسن اقبال نے سپورٹس سٹی بناتے وقت کروڑوں کا نقصان پہنچایا‘‘ جو شرمندگی کی بات ہے کیونکہ ان کے قائدین جہاں اربوں کے فلیٹس خرید رہے تھے وہاں وزیر ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے آپ کو کروڑوں تک محدود رکھا، آخر انہیں اس کارِ بے لذت سے کیا ملا؟ بلکہ انہوں نے تو اپنے قائدین کانام بھی ڈبو دیا جبکہ دوسری طرف شوگر مافیا، پٹرول مافیا، آٹا مافیا اور مہنگائی مافیا سے متعلق افراد نے کبھی اربوں سے کم پر بات ہی نہیں کی اور اپنی پوزیشن اور مقام و مرتبے کا پورا پورا خیال رکھا ہے جبکہ ان جیسے لوگ مونگ پھلی پر ہی گزر اوقات کرتے رہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹویٹر پیغام میں چودھری احسن اقبال کے بیان کا جواب دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
کچھ نہیں کرنا کرنے کے لیے کافی ہے
ڈوبنا پار اُترنے کے لیے کافی ہے
تیرے گھر کو جانے والی راہگزر
رُکنے اور ٹھہرنے کے لیے کافی ہے
خواب نے رستا روک بھی رکھا ہے، لیکن
یہ دیوار گزرنے کے لیے کافی ہے
دشت یہ ریت سے بھرا ہوا تنہائی کا
میرے چُگنے چرنے کے لیے کافی ہے
رُکی ہوئی جو ہوا ہے تیری توجہ کی
میرے جلد بکھرنے کے لیے کافی ہے
رہنی چاہیے دل میں کچھ گنجائش بھی
خالی ہونا بھرنے کے لیے کافی ہے
کوئی خرابہ اس سے بڑھ کر کیا ہو گا
دل کی دہشت ڈرنے کے لیے کافی ہے
کچھ درکار ہے نیت بھی نیکی کے لیے
نام بھی تہمت دھرنے کے لیے کافی ہے
اور کسی مہلت کی حاجت نہیں، ظفرؔ
یہ جینا ہی مرنے کے لیے کافی ہے
آج کا مقطع
زردیاں ہیں میرے چہرے پہ ظفرؔ اس گھر کی
اس نے آخر مجھے رنگِ در و دیوار دیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں