نیب‘ نیازی گٹھ جوڑ دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکا: شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نیب نیازی گٹھ جوڑ دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکا‘‘ اور یہی ان کی بنیادی غلطی بھی تھی کیونکہ دھیلا تو سکۂ رائج الوقت ہے ہی نہیں سو اس کی کرپشن کیا ثابت ہو سکتی ہے، بلکہ یہ تو بعض اوقات پائیوں کی کرپشن ثابت کرنا شروع کر دیتے تھے، لیکن ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اور جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرا یہی چیلنج ہوا کرتا تھا کہ یہ لوگ ایک دھیلے یا ایک پائی کی کرپشن ثابت کر کے دکھائیں اور یہ سادہ لوح اس کے پیچھے لگ گئے اور اربوں کی کرپشن چھوڑ کر دھیلے اور پائی کی کرپشن ثابت کرنے میں لگے رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مریم جب جھوٹ بولتی ہیں پکڑی جاتی ہیں:عندلیب عباس
تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس نے کہا ہے کہ کہ ''مریم جب جھوٹ بولتی ہیں پکڑی جاتی ہیں‘‘ اور انہیں معلوم ہی نہیں کہ کامیاب جھوٹ کیسے بولا جاتا ہے جو کہ بے حد نفاست اور ہنر مندی کا متقاضی ہے کہ آدمی جھوٹ بھی بول رہا ہو تو یہی لگے کہ سو فیصد سچ بول رہا ہے جبکہ ان کے والد صاحب نے بھی ''سیاسی بیان‘‘ کہہ کر اپنے بیانات کو کور کرنے کی کوشش کی تھی حالانکہ اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سفید جھوٹ اس انداز میں بھی بولا جا سکتا ہے کہ کسی کو جھوٹ کا شبہ تک نہ گزرے لیکن اس کے لیے بڑے حوصلے اور خصوصی ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ جھوٹ ہی کیا جو بول کر آپ پکڑے جائیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھیں۔
اداروں کو بھی نواز شریف کے بیانیے پر چلنا ہوگا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''اداروں کو بھی نواز شریف کے بیانیے پر چلنا ہوگا‘‘ جو کہ سیدھا سادہ سیاسی موت کا نظریہ ہے۔ یہ الگ بات کہ پارٹی کا ایک دھڑا خود بھی اس بیانیے سے منحرف ہے اور اس کی وجہ سے پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے؛ تاہم یہ بیانیہ ایک سیڑھی ہے اور اصل منزل کچھ اور ہے۔ ویسے بھی اس بیانیے کے ساتھ ہمیں اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے اور اقتدار کے بغیر جینا ہمارے لیے کافی دشوار ہے۔ آپ اگلے روز وادیٔ لیپا میں خطاب کر رہی تھیں۔
عید سے پہلے اشیا کا مہنگا ہونا کوئی نئی بات نہیں: شمیم آفتاب
تحریک انصاف کی رہنما اور ممبر پنجاب اسمبلی شمیم آفتاب نے کہا ہے کہ ''عید سے پہلے اشیا کا مہنگا ہونا کوئی نئی بات نہیں‘‘ اس لیے اسے ٹھنڈے و دماغ سے قبول کرنا چاہیے کیونکہ عید ایک ایسا تہوار ہے کہ اس کی خاطر ہمیں ایسی تکالیف خوشی سے برداشت کرنی چاہئیں کیونکہ عید کوئی روز روز نہیں آتی اور جس طرح ہم عید کا انتظار کرتے ہیں اس سے بھی زیادہ شدت سے اشیا بیچنے والوں کو اس کا انتظار ہوتا ہے کیونکہ انہیں بھی حق حاصل ہے کہ عید کی خوشیوں کو دوبالا کر سکیں جبکہ مملکت خداداد میں ہر شہری برابر کے حقوق کا مالک ہے اور کسی کو اس کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار ِخیال کر رہی تھیں۔
ملک مشکل صورتحال سے دو چار ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملک مشکل صورتِ حال سے دو چار ہے‘‘ بلکہ ہم ملک سے بھی زیادہ مشکل صورتحال سے دو چار ہیں حتیٰ کہ ملک بھی زیادہ تر ہماری وجہ سے مشکل صورتحال سے دو چار ہے جو ہم نے اپنے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور اس میں ہمارا بھی کوئی خاص قصور نہیں ہے کیونکہ ملک بھر میں ٹرک اب اسی کام کے لیے رہ گئے ہیں اور ان کی لال بتی دن کے وقت بھی روشن رہتی ہے اور یہ سراسر ایندھن کا ضیاع ہے کیونکہ ٹرکوں کو کسی مفید کام کے لیے استعمال ہونا چاہیے تا کہ لوگ بھی کوئی ڈھنگ کا کام کر سکیں۔ آپ اگلے روز جامعہ سراج العلوم مانسہرہ میں ایک تعزیتی ریفرنس میں شریک تھے۔
آہ! پروفیسر محمد سلیم باغیؔ
آج ہمارے ایک ہمددمِ دیرینہ پروفیسر محمد سلیم باغی ہمیں سوگوار چھوڑ کر راہیِ ملکِ عدم ہو گئے۔ آپ پیپلز پارٹی کے دنوں میں ہمارے ایک نہایت اہم رفیق کار تھے اور اوکاڑہ کی شہری تنظیم کے ہمیشہ جنرل سیکرٹری رہے۔ آپ بلا کے مقرر اور رانا محمد اظہر کے علاوہ پارٹی میں واحد نظریاتی آدمی تھے اور پارٹی کے تھنک ٹینک کے سربراہ۔ پروفیسر صاحب پہلے ہی ایک بہت بڑے صدمے سے دو چار تھے جب کوئی دو سال پہلے اپنے جواں سال بیٹے کی وفات نے انہیں اُدھیڑ کر رکھ دیا تھا۔ علیل تو وہ پہلے ہی تھے لیکن حال ہی میں کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد لاہور بغرض علاج آئے اور یہیں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ حقیقی معنوں میں شہر کا سرمایہ تھے اور ان کی وفات سے اوکاڑہ ایک نہایت قیمتی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
اور‘ اب آخر میں نشاط سرحدی کی غزل:
ہم کبھی ذات کے اظہار سے آگے نہ بڑھے
ایک ہی بات کی تکرار سے آگے نہ بڑھے
اپنے بوسیدہ خیالات سے چمٹے ہوئے لوگ
اپنے مٹتے ہوئے آثار سے آگے نہ بڑھے
پڑھنے والوں کو بھی بے لطف بنا دیتی ہے
وہ کہانی کہ جو کردار سے آگے نہ بڑھے
بڑھ گئے کتنے ہی عالم ترے عالم کی طرف
ہم ترے سایۂ دیوار سے آگے نہ بڑھے
یوسف اک آن میں پہنچے تھے زلیخا کے محل
اور ہم مصر کے بازار سے آگے نہ بڑھے
وضعداری ہے محبت میں ہمِیں سے قائم
زندگی کٹ گئی دیدار سے آگے نہ بڑھے
کہکشائیں ہیں تہِ دامِ جہاں لیکن ہم
دامنِ کوئے شبِ تار سے آگے نہ بڑھے
ہو گئے جذب اسی ایک ہی عالم میں نشاطؔ
عالمِ حُسنِ دل آزار سے آگے نہ بڑھے
آج کا مطلع
کھڑکیاں کس طرح کی ہیں اور در کیسا ہے وہ
سوچتا ہوں جس میں وہ رہتا ہے گھر کیسا ہے وہ