"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، ’’مکالمہ‘‘ اور ادریس بابر

حکومت کے کھوکھلے وعدے ردی کاغذ کے
ٹکڑے پر لکھنے کے قابل نہیں: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ''حکومت کے کھوکھلے وعدے ردی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھنے کے قابل نہیں‘‘ جبکہ ہمارے وعدے ردی کاغذپر آسانی سے لکھے اور پڑھے جا سکتے ہیں اور جب سے کاغذ مہنگا ہوا ہے ہم اپنی تحریر وں کے لیے ردی کاغذ ہی استعمال کر رہے ہیں جس سے ردی کاغذ کے ٹکڑوں کی قسمت جاگ اٹھی ہے اور اگرچہ ہم حکومت گرانے کے پروگرام اور دعوے سے دست بردار ہو گئے ہیں اور اگر حکومت کے خلاف بیان دینا بھی بند کر دیں تو ہمیں حکومت کی بی ٹیم ہی سمجھا جائے گا کیونکہ ہم نے عوام کو بھی منہ دکھانا ہے اور آزاد کشمیر انتخابات کے بعد تو یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کرپشن کے ناسور نے ملک کو پیچھے دھکیل دیا: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''کرپشن کے ناسور نے ملک کو پیچھے دھکیل دیا‘‘ جس پر ہم قابو پانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں اور جس کے نتیجے میں فی الحال صرف سر ٹوٹے ہیں، کرپشن میں کمی نہیں ہوئی؛ تاہم ہماری کوشش یہ بھی ہے کہ یہ ایک جگہ پر رک جائے اور اس میں اضافہ نہ ہو جبکہ کرپشن کی حالیہ سطح سے عوام بھی کچھ زیادہ متنفر نہیں ہوئے اور اس کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں کیونکہ اس کے خلاف وہ ابھی سڑکوں پر نہیں نکلے کیونکہ وہ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ سڑکیں آنے جانے کیلئے ہوتی ہیں، مظاہروں کیلئے نہیں اور ان کی اس سمجھ پر جتنا بھی ناز کیا جائے‘ کم ہے۔ آپ اگلے روز اٹک کے گائوں بسال کو ماڈل ویلیج بنانے کا اعلان رہے تھے۔
مریم نواز اور فضل الرحمن سسٹم میں نہیں، اس
لیے اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن سسٹم میں نہیں، اس لیے اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘ اس لیے سسٹم کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح سسٹم میں لایا جائے جبکہ مریم نواز‘ اگر ان پر کوئی عدالتی رکاوٹ نہ ہو، تو کسی ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر سسٹم میں آ سکتی ہیں؛ البتہ مولانا صاحب کے لیے شاید اب یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ نواز شریف کی طرح وہ بھی اب اسمبلی میں جانے کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی کارگزاری نے ان کی سیاست کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز وزیراعظم کی صدارت میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ن اور ش میں گھمسان کی جنگ
جاری ہے: فردوس عاشق اعوان
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''ن اور ش میں گھمسان کی جنگ جاری ہے‘‘ جس سے دوسری جماعتوں میں بھی اس رجحان کے پھلنے پھولنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے جبکہ ہماری جماعت پہلے ہی خاصی حد تک اس کا شکار ہے اور اگرچہ ترین گروپ والا اونٹ ابھی کسی کروٹ نہیں بیٹھا ہے کیونکہ نہ تو اسے مطلوبہ ''انصاف‘‘ مہیا کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اس نے ہتھیار ڈالے ہیں حالانکہ انکوائری رپورٹ بھی آ چکی ہے اور بجٹ بھی پاس ہو چکا ہے، بلکہ ان کے ایک سرکردہ رکن کے خلاف پرچے درج ہو ر ہے ہیں، اس لیے یہ لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
مکالمہ، کتابی سلسلہ 54
کراچی سے مبین مرزا کی زیر ادارت چھپنے والے اس جریدے کا شمارہ 54شائع ہو چکا ہے جو حسبِ معمول عمدہ اور چیدہ تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس کے لکھنے والوں میں پروفیسر فتح محمد ملک، حسن منظر، ذکیہ مشہدی، محمد حمزہ فاروقی، فاروق خالد، ڈاکٹر رئوف خیر، یاسمین حمید، نیلوفر اقبال حصہ مضامین میں نمایاں ہیں جبکہ شاعری میں جلیل عالی، اختر شمار اور خالد معین جبکہ دیگر رنگا رنگ تحریروں میں علی تنہا، محمد حمید شاہد، سید ایاز محمود، ڈاکٹر امجد طفیل، خالد معین، ایم خالد فیاض، خالد محمود سامٹیہ، عارفہ ثمین طارق، کرن سنگھ اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی جلوہ گر ہیں۔ آخر میں جلیل عالی کے دو شعر:
وہ کہتا ہے کہ ہر شے ٹھیک ہوتی جا رہی ہے
کوئی ہونی مگر نزدیک ہوتی جا رہی ہے
ترے بخشے ہوئے ان جگنوئوں کی روشنی سے
یہ شب کچھ اور بھی تاریک ہوتی جا رہی ہے
اور‘ اب آخر میں ادریس بابر کی شاعری:
بس یونہی ختم ہی نہیں ہوتی
شاعری ختم ہی نہیں ہوتی
باغ موڑ آئے دشت چھوڑ آئے
بے گھری ختم ہی نہیں ہوتی
اسے تنہائی روڈ کہتے ہیں
یہ گلی ختم ہی نہیں ہوتی
اور کیا حکم ہے مرے آقا
زندگی ختم ہی نہیں ہوتی
پھر اچانک میں ہنسنے لگتا ہوں
اور ہنسی ختم ہی نہیں ہوتی
ایک آنسو اگر بچا رکھیں
روشنی ختم ہی نہیں ہوتی
بس محبت میں ایک مسئلہ ہے
یہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتی
٭......٭......٭
خالی ہاتھوں سے سکندر کا پتا چلتا ہے
عید آتی ہے تو بے گھر کا پتا چلتا ہے
منجنیقوں کی طرح چل پڑے راکٹ لانچر
کسی مسجد کا نہ مندر کا پتا چلتا ہے
نائو ڈوبے تو کنارے کی خبر ملتی ہے
چاند ابھرے تو سمندر کا پتا چلتا ہے
شعر سے کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں ہوتا بس یار
آنکھ اوجھل کسی منظر کا پتا چلتا ہے
ایک دن نیند میں چلتے ہوئے ٹکراتے ہیں
اور ادریسؔ کو بابرؔ کا پتا چلتا ہے
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتیاں، ظفرؔ
آنکھ بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں