جھوٹی خبروں سے عالمی میڈیا پر پاکستان
کو نشانہ بنایا جا رہا ہے: صدر عارف علوی
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ''جھوٹی خبروں سے عالمی میڈیا پر پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘ اور سب سے زیادہ افسوسناک بات یہی ہے کہ دنیا میں جھوٹ کا دور دورہ ہے اور سچ بولنے کی روایت ہی ختم کر دی گئی ہے حالانکہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود دنیا میں اس کا چلن عام ہو گیا ہے جو قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
شہباز اور نواز کی سوچ ایک جیسی، دو
بیانیے ممکن ہی نہیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''شہباز اور نواز کی سوچ ایک جیسی، دو بیانیے ممکن ہی نہیں‘‘ اور یہ جو پارٹی میں دو دھڑے پیدا ہو چکے ہیں تو یہ حکومتی پروپیگنڈے اور سازشوں کا نتیجہ ہیں اور شہباز شریف اگر مفاہمت کی طرف رواں دواں ہیں تو یہ بھی نواز شریف کی سوچ سے مختلف نہیں کیونکہ حکومت اور اداروں پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد جوصورت حال پیدا ہو چکی ہے، اس سوچ سے وہ خود تو اتنا بڑا یوٹرن نہیں لے سکتے تھے، اگرچہ وہ کہہ سکتے تھے کہ وہ صرف سیاسی بیانات تھے؛ تاہم اب مفاہمت کا سارا کام وہ شہباز شریف کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، باقی اللہ اللہ خیر سلا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہار ِخیال کر رہے تھے۔
شہباز سی پیک کو سیاست سے دور رکھیں: اسد عمر
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف سی پیک کو سیاست سے دور رکھیں‘‘ بلکہ اگر خود بھی سیاست سے دور رہیں تو بہتر ہوگا کیونکہ آپ حضرات تیس سال سے سیاست کر رہے ہیں، اب تیس سال تک سیاست کرنے کی ہماری باری ہے، اور اگر تیس سال نہیں تو بیس سال پر تو ہمارا حق بنتا ہے اور جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو بعض اوقات ہم خود بھی اس پر ذرا مختلف انداز میں سوچ بچار کرنے لگتے ہیں اور خود چین کو آگے بڑھ کر معاملات کو درست کرنا پڑتا ہے، اس لیے سی پیک کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں، شہباز شریف کو اس پر سیاست کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نواز شریف کی سیاست مٹانے کی کوشش
خود فریبی کے سوا کچھ نہیں: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی سیاست مٹانے کی کوشش خود فریبی کے سوا کچھ نہیں‘‘ کیونکہ وہ اپنی سیاست کو مکمل طور پر خود ہی مٹا چکے ہیں اور اگر برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں تو ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل کے مترادف ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے ساتھ وہ اپنی صاحبزادی کی سیاست کا بھی تیا پانچا کر چکے ہیں، اس لیے مخالفین کو اس سلسلے میں اپنی مساعی ٔ جمیلہ کو بروئے کار لانے کی چنداں ضرورت نہیں، حتیٰ کہ اس کا اثر شہباز شریف کی دم توڑتی سیاست پر بھی پڑنے والا ہے جس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
مکالمہ (سالنامہ)
کراچی سے مبین مرزا کی ادارت میں شائع ہونے والے منفرد جریدے کا سالنامہ شائع ہو گیا ہے جو مجلد اور 570 صفحات کو محیط ہے۔ شعبۂ افسانہ میں اسد محمد خاں، علی تنہا، محمد حمید شاہد، شہناز خانم عابدی، امجد طفیل، نجیبہ عارف اور عرفان جاوید، حصۂ نثر میں ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور تنویر انجم جبکہ شاعری میں محمد سلیم الرحمن، یہ خاکسار، انور شعور، افضال احمد سید، یاسمین حمید، غلام حسین ساجد، جلیل عالی، تحسین فراقی، معین نظامی، جمیل الرحمن اور عرفان ستار نمایاں ہیں۔ یادیں اور خاکے کے عنوان کے تحت حسن منظر، محمد حمزہ فاروقی، خورشید رضوی اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر و دیگران، تراجم میں محمد سلیم الرحمن و دیگران کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی کے لیے ایک گوشہ مخصوص ہے جس میں مبین مرزا، علی احمد فاطمی، عبداللہ جاوید، مہر افشاں فاروقی ، یاسمین حمید و دیگران جبکہ ایک گوشہ رشید امجد کے لیے ہے جس میں جلیل عالی، ارشد معراج، کوثر محمود اور مبین مرزا کی تحریریں ہیں۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کی غزل:
نہ بات بنتی ہے کوئی نہ کام چل رہا ہے
کئی دنوں سے یہی انتظام چل رہا ہے
اُس اک لکیر پہ دیکھو مدام چل رہا ہے
خدا کا شکر کہ سارا نظام چل رہا ہے
اثر دعائوں میں آئے تو کس طرح آئے
یہاں حلال کی صورت حرام چل رہا ہے
نہیں ہے تیغ کوئی بھی نیام کے اندر
جدھر بھی جائو یہی قتل عام چل رہا ہے
ابھی تلک ہے وہی سحر سبز باغوں کا
فریبِ عام برائے عوام چل رہا ہے
تمام شہر ہے خالی، اجڑ گئے چوپال
امیرِ شہر کی محفل میں جام چل رہا ہے
تمہارے حسن کے چرچے، وفا کی باتیں بھی
تمہارے نام کا سکہ مدام چل رہا ہے
یہ کائنات کی گردش کہیں تھمی تو نہیں
کوئی ستارہ کہیں صبح و شام چل رہا ہے
کوئی نہیں جسے خالی پھرایا جاتا ہو
فقیر خوش ہے، سلام و طعام چل رہا ہے
وگرنہ کوئی بھی خوبی کہاں ہے مجھ میں نبیلؔ
یہ میرا ماں کی دعائوں سے کام چل رہا ہے
آج کا مقطع
ظفرؔ، ہم کیا ہماری شاعری کیا
ابھی تو ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں