"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ابرار احمد

دہشت گردی کے خلاف جوانوں کی
قربانیاں قابل فخر ہیں: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی کے خلاف جوانوں کی قربانیاں قابل فخر ہیں‘‘ اسی طرح ہماری قربانیاں بھی کچھ کم قابلِ فخر نہیں ہیں کہ ایک دھیلے اور ایک پائی کی کرپشن کیے بغیر ہم نے اتنے اثاثے بنائے ہیں جو بالآخر اس ملک کے عوام ہی کے کام آئیں گے، کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایک کر کے سب نے بحقِ سرکار نیلام ہونا ہے اور ہمارے پاس صرف قربانی ہی رہ جائے گی جس پر پورے ملک کو فخر کرنا چاہیے کہ قربانی کے بغیر کوئی سیاستدان خود کو سیاست دان کہنے اور کہلانے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ آپ اگلے روز واہ کینٹ فیکٹری میں ہونے والے حادثے پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
دو برسوں میں کئی سیاست دانوں
کو سزا ہو جائے گی: شیخ رشیداحمد
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''دو برسوں میں کئی سیاستدانوں کو سزا ہو جائے گی‘‘ جبکہ ہماری کوشش تو یہی ہو گی کہ یہ کام دو برسوں سے پہلے ہی ہو جائے ، لیکن پراسیکیوشن کا شعبہ ہی اس قدر سست ہے کہ اول تو کسی کو سزا ہوتی نہیں، اور اگر ہوتی بھی ہے تو مقدمہ طویل عرصے تک لٹکا رہتا ہے، اس کے علاوہ ملزمان مہنگے اور قابل وکیلوں کے ذریعے بری ہو جاتے ہیں اور احتساب کے ادارے دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں جبکہ ویسے بھی ملک عزیز میں سیاستدانوں کی کثرت ہو گئی ہے جس کے آگے بند باندھنا ضروری ہے اور اس سلسلے میں ساری امیدیں کیسوں ہی سے وابستہ ہیں۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
ملک بحرانوں کا شکار، انہیں مریم
کے بیٹے کی فکر ہے: عظمیٰ بخاری
نواز لیگ پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''ملک بحرانوں کا شکار، انہیں مریم کے بیٹے کی فکر ہے‘‘ حالانکہ انہیں صرف مریم نواز کے حوالے سے فکر مند ہونا چاہیے جو لندن جا کر اپنے والد صاحب کے ہمراہ ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں اور ہم حیران ہیں کہ حکومت کے پاس اتنے روڑے کہاں سے آ گئے ہیں؛ اگرچہ حکومت کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بھان متی کا یہ کنبہ جوڑا گیا ہے۔مریم نواز صاحبہ اپنے والد صاحب کو واپس لانے ہی کے لیے باہر جانا چاہتی ہیں تا کہ ووٹ کی عز ت میں جو بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے، یہاں آ کر موقع پر اس کا جشن منائیں۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے باہر رکن اسمبلی کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
وزیراعلیٰ کا شکر گزار ہوں، اعتماد پر
پورا اتروں گا:: فیاض الحسن چوہان
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ کا شکرگزار ہوں، اعتماد پر پورا اتروں گا‘‘ ویسے انہوں نے اپنے رسک پر ہی مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جیسا کہ وہ ہر کام اپنے رسک پر ہی سر انجام دے رہے ہیں اور جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک بہادر آدمی ہیں اور ہر بہادر آدمی کی طرح وہ بھی ہر طرح کا رسک لینے کیلئے ہر وقت تیار ہوتے ہیں اور اکثر اوقات اس کے نتائج بھی بھگتا کرتے ہیں جس کی انہوں نے کبھی بھی پروا نہیں کی اور خاکسار پر اعتماد کرنے کا جو نتیجہ نکلے گا انہیں بہر حال اس کی فکر ہونی چاہیے کیونکہ فکر مندی ایک اچھی چیز ہے اور آدمی کو بے فکر نہیں ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز نئی ذمہ داری سونپے جانے پر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
2022ء تک نواز شریف واپس
نہیں آئیں گے: منظور وسان
وزیراعلیٰ سندھ کے مشیرِ زراعت منظور وسان نے کہا ہے کہ ''2022ء تک نواز شریف واپس نہیں آئیں گے‘‘ اور کافی عرصے سے میری پیشگوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں تو اس وجہ سے میں نے اس قسم کی پیشگوئیاں کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے کیونکہ یہ ایک عام آدمی بھی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ مستقبل بعید میں بھی ان کی واپسی کے کوئی امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ اب وہ کبھی واپس نہ آئیں گے؛ چنانچہ یہ دونوں پیشگوئیاں بھی میں یکے بعد دیگرے کرتا رہوں گا جن کا غلط ثابت ہونے کا ہرگز کوئی امکان نہیں ہے اور اس طرح میرا اعتبار بھی بحال رہے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
باز گشت
بارش ہونے کا نام نہیں لیتی؍ روئے جاتی ہے؍ ایک شرابور دیوار سے لپٹ کر؍ جس سے ایک خوشبو اور نیند؍ رخصت ہو گئی ہے؍ ایک پہاڑی راستے پر برستی ہے؍ جس سے ہم اب کے گزر بھی چکے؍ ان سمتوں پر؍ جہاں تمہارے کھو جانے کی نشانیاں ہیں۔۔۔؍ گیلی مٹی پر؍قدموں کے گھائو دیکھ کر؍ آنسوئوں کی طرح ٹپک رہی ہے؍ ایک خالی میز پر؍ جہاں رہ جانے والی چائے کی پیالیوں میں؍ بجھی سگرٹوں کے ٹکڑے پڑے ہیں؍ ٹھٹھرتا، کانپتا ہوا کھڑا ہوں؍ گزشتہ کی دیوار سے لگ کر؍ جہاں سے ایک کھڑکی صاف دکھائی دیتی ہے؍ سفید، دودھیا پردوں کے عقب میں؍ پیچھے ہٹتا ہوا، ایک سایہ۔۔۔۔؍ دن اور رات جو تمہارے دالان کی؍ ہوا میں کہیں کھو گئے ہیں؍ وہ پل۔۔۔۔ جو کسی کی میراث نہیں؍ اب میری بھی نہیں؍سب جانتے ہیں؍ بارش، ابد کی طرف بڑھتی ہے؍ مگر یہ بارش۔۔۔۔؍ کوئی نہیں جانتا؍ موسیقی ہے یا سکوت؍ سیرابی ہے کہ پیاس؍ وصال ہے یا جدائی؍ دسمبر کی دور افتادہ ٹھٹھری ہوئی؍ اس رات میں؍ کون اس بارش کو سنتا ہے؍ مگر تم اور میں۔۔۔۔؍ جو چھانٹوں کی طرح؍ بدن پر برستی ہے؍ اور اس سے پرے کہیں؍ گزری ہوئی؍ ایک بارش کی باز گشت بن کر۔۔۔۔
آج کا مطلع
جیسے کتاب میں سوکھے پھول کی ایک مہک رہ جاتی ہے
ختم بھی ہو جائے جو محبت کوئی کسک رہ جاتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں