بارش صبح چھ بجے شروع ہوئی اور اب 12 بج رہے ہیں لیکن تھمنے کا نام نہیں لے رہی، کبھی موسلا دھار اور کبھی دھواں دھار، زندگی بھر میں اتنی تو کیا‘ اس سے نصف بھی بارش کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ لان تالاب بن چکے ہیں اور درختوں سے پانی اس طرح ٹپک رہا ہے جیسے آنسوئوں سے رو رہے ہوں۔ کمروں تک میں پانی گھس آیا ہے، جو لوگ راستوں میں تھے، ان کا کیا ہوا اور کچّی دیواروں والے گھروں کی کیا کیفیت ہو گی۔ یہ بارانِ رحمت نہیں‘ بارانِ زحمت بن کر نازل ہو رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو تھوڑے ہی عرصے میں دنیا ڈوب جائے گی اور یہی قیامت کی گھڑی ہو گی ۔
ایک زمانہ تھا کہ بارش سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے اور اس طرح کی شاعری بھی کہ؎
اب تو بارش ہو ہی جانی چاہیے، اس نے کہا
تا کہ بوجھ اُترے پرانی گرد کا اشجار سے
اور ؎
بارش تو خیر دھو گئی دل سے تمام نقش
دیوارِ شہر کا بھی وہ عالم نہیں رہا
آم ٹھنڈے کیے اور کھائے جا رہے ہیں‘ اور مختلف پکوان تیار ہو رہے ہیں، ہلّا گلا اور موج مستی ہو رہی ہے۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک بھلی لگتی ہے۔ اولے پڑیں تو اس سے بھی گھبرانے کے بجائے ان سے کھیلنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ کوئی پھسل کر گرتا ہے تو تالیاں بجائی جا رہی ہیں، بارش کیا تھی‘ ایک جشن کا ساماں ہوتا تھا۔
اب ایک پنجابی شعر بھی ؎
وسّیا مینہ تھے بھِجے کپڑے گھر پہنچن تو پہلاں
کھِیسے اندر کھریاں چارے پُڑیاں زہر دیاں
ترجیح
میاں نے سٹپٹاتے ہوئے کہا: اب اس گھر میں میں رہوں گا یا مرغیاں۔ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل پڑے تو بیوی بولی: آخر اتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے؟
خالد احمد ایک بار کہہ رہے تھے: میں ہر سال بابا بلھے شاہ کے مزار پر چلا جاتا ہوں، وہاں دس روز تک ریاضت بھی کرتا ہوں اور دربار کی صفائی ستھرائی بھی۔ اس پر گلزار وفا چودھری بولے:تو وہ دس دن بزرگ کہاں جا کر رہتے ہیں؟
انتظار
ایک صاحب بالائی منزل پر رہتے تھے، رات کو دیر سے آتے اور سونے سے پہلے ایک ایک کر کے اپنے دونوں جوتے اتار کر زور زور سے فرش پر مارتے۔ ایک دن وہ نیچے اترے تو وہاں کے رہائشیوں نے ان سے اس بات کا شکوہ کیا کہ وہ ان کے آنے تک جاگتے رہتے ہیں اورجوتے اتارنے کی آواز آنے کے بعد سوتے ہیں‘ جس پر انہوں نے معذرت کی اور کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس روز واپس آ کر انہوں نے حسبِ معمول جوتا اتار کر زور سے فرش پر مارا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، چنانچہ انہوں نے دوسرا جوتا اتار کر آرام سے نیچے رکھ دیا۔ صبح وہ نیچے اترے تو سب لوگوں کی آنکھیں سوجھی ہوئی اور چہرے لٹکے ہوئے تھے، انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولے: ہم رات سے اب تک آپ کے دوسرے جوتے کا انتظار کر رہے ہیں!
سلام یا حسینؓ
یہ مختلف شعرا کے تخلیق کردہ مرثیوں کا مجموعہ ہے جسے مجید اختر، نسرین سید، ارم اقبال نقوی اور مکرم حسین زمزم نے مرتب کیا ہے ۔انتساب امامِ زمانہ محمد مہدی علیہ السلام کے نام ہے۔ پسِ سرورق تحریر ڈاکٹر بلال نقوی کی ہے جبکہ اندرونِ سرورق مرتب کی تصویر اور عارف امام اور تصویر کے ساتھ ندیم اصغر کی رائے درج ہے۔ دیباچہ صفدر ہمدانی(سرے برطانیہ) نے لکھا ہے۔ چیدہ چیدہ مرثیہ نگاروں میں افتخار عارف، اسد اعوان، شاہدہ حسن، صادق جمیل، عارف امام، عقیل عباس جعفری، فہیم شناس کاظمی، قمر رضا شہزاد، ندیم اصغر، ندیم ملک، واجد امیر اور آثار شیرازی شامل ہیں۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
لگتا ہے بظاہر بہت آسان پڑا ہے
اس بُت سے کوئی کام ہمیں آن پڑا ہے
ممکن ہو تو کر دیجیے کسی دن مجھے واپس
جو آپ کے گھر میں میرا سامان پڑا ہے
وحشت ہے اسی طرح سے چڑھتی ہوئی سر کو
اور ساتھ ہی ٹکڑوں میں گریبان پڑا ہے
ایسا ہے کہ پہلے کی طرح شام ہے بے رنگ
اور شہر اسی طرح سے سنسان پڑا ہے
انجام پہ جس کام کو پہنچانا تھا خود ہی
سمجھے ہیں کہ اس کا ابھی امکان پڑا ہے
جس جرم کے ہم پاس سے بھی گزرے نہیں تھے
اس کا بھی بالآخر ہمیں تاوان پڑا ہے
ہم نے جسے ہر حال میں طے کرنا ہے یکسر
سارا ہی ابھی راستا انجان پڑا ہے
خالی ہوئی ہے جب سے یہ مہمان سرائے
یہ گھر بھی اسی وقت سے ویران پڑا ہے
کرتا ہے ظفرؔ کام بھی معمول کے سارے
ویسے تو کئی دن سے پریشان پڑا ہے
آج کا مقطع
ہر بار کوئی اور نکلتا ہے وہ، ظفرؔ
ورنہ تو اس کو ڈھونڈ کے لاتے ہیں بار بار