"ZIC" (space) message & send to 7575

مفت کے اشتہار اور ابرار احمد

اپیل
ملکِ عزیز کے جملہ نجومیوں اور جوتشیوں کی طرف سے درد مندانہ اپیل ہے کہ ان کی بیروز گاری کا خاتمہ کرنے کیلئے جلد از جلد ا قدامات اٹھائے جائیں کیونکہ نت نئی اور تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ، سیاسی اور غیر سیاسی دونوں کے باعث ان مسکینوں کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں حتیٰ کہ اب اس طبقے کے طوطے بھی بھوکوں مرنے لگ گئے ہیں، جو فال نکالا کرتے ہیں۔ بہتر ہو گاکہ انہیں حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی توپیں چلانے پرتعینات کر لیں اور ان بے زبانوں کی دعائیں لیں، تاش کے پتے اور فالنامے بھی نصف قیمت پر دستیاب ہیں۔ہماری کساد بازار ی کی اصل وجہ وزرا صاحبان کی پیش گوئیاں ہیں جن کے غلط ثابت ہونے کے باوجود ان کا کاروبار چل رہا ہے۔
ٹینڈر مطلوب ہیں
نوشتۂ دیوار پڑھنے کیلئے حکمرانوں کو نظر کی عینکیں سپلائی کرنے کیلئے سربمہر ٹینڈر مطلوب ہیں۔ محدب شیشے والی عینکوں کو ترجیح دی جائے گی کیونکہ اکثر خواتین و حضرات کی بینائی پہلے ہی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اگرچہ سرکاری طور پر وال چاکنگ پر سخت پابندی عائد ہے تاہم حکومت بالآخر نوشتۂ دیوار پڑھنے پر تیار ہو گئی ہے۔ساتھ میں دھوپ کی عینکوں کا ایک سیٹ مفت پیش کیا جائے گا۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا نادر موقع۔ ٹینڈر حکومت کے سربراہ اپنے دست مبارک سے خود کھولیں گے۔ المشتہر فون نمبر 70000000
کرائے کیلئے خالی ہے
ایک عدد ورکشاپ کرائے کیلئے خالی ہے۔ واضح رہے کہ ورکشاپ کا صرف ڈھانچہ دستیاب ہے کیونکہ اوزارچند روز پہلے ہی بیچ کر کھائے جا چکے ہیں عمارت چوری کا مال جمع کرنے کیلئے بھی مثالی ثابت ہو سکتی ہے بلکہ چند حضرات واردات سے واپسی پر اس میں آرام بھی کر سکتے ہیں۔ ورکشاپ کے بورڈ کا کرایہ البتہ وصول نہیں کیا جائے گا کیونکہ آخر اخلاق بھی کوئی چیز ہے، پکڑے جانے کی صورت میں معاملات طے کروانے کا بھی معقول انتظام ہے۔
بھینس برائے فروخت
ایک راس بھینس برائے فروخت موجود ہے اگرچہ چوری کی ہے لیکن اصل مالک اسے شناخت نہیں کر سکے گا کیونکہ بھینس کا کوئی حلیہ ہوتا ہی نہیں اور ساری بھینسیں ایک جیسی ہوتی ہیں البتہ خریدار کے پاس ایک تگڑ ی سی لاٹھی ضرور ہونی چاہیے کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ دودھ دوہنے سے پہلے اس کے سامنے بین بجانی پڑتی ہے جو بھینس کے ہمراہ مفت دی جائے گی۔ نقالوں سے ہوشیار رہیں، المشتہر، امانت خان ولد دیانت خان پتلی گلی ، شاہدرہ
نسلی کتا برائے فروخت
اعلیٰ نسل کا ایک کتا برائے فروخت موجود ہے جو صرف بھونکتا ہے کاٹتا نہیں البتہ کاٹتا اس وقت ہے جب وہ بھونک نہ رہا ہو،خیر طبعی عمر ختم ہونے کے بعد یہ آرام سے کتے کی موت مر جائے گا۔ گھر کی حفاظت کیلئے چوکیدار کے ساتھ ایک کتے کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ دونوں ایک دوسرے کو سونے نہ دیں۔ وفادار اتنا ہے کہ اسے پہلے کوئی پچیس بار فروخت کر چکا ہوں لیکن یہ ہر بار میرے پاس آ جاتا ہے ،اس کا سب سے بڑا وصف اس کی وفا ہی ہے جو عام کتوں میں نہیں ہوتی، یہ ہر دوسرے کتوں کا دوست ہے حالانکہ کتا کتے کا بیری ہوتا ہے۔المشتہر خواجہ سگ فروش پرانی انارکلی لاہور
انگریزی سیکھئے
انگریزی سکھانے کیلئے ٹیوشن سنٹر حاضر ہے۔آپ فر فر انگریزی بول سکتے ہیں بیشک وہ کسی کی سمجھ میں نہ آتی ہو، انگریزی زبان چونکہ پڑھانے سے آتی ہے اسی لئے اس سنٹر کا مقصد ہمارا خود انگریزی سیکھنا بھی ہے۔ اس لئے نہایت معمولی فیس کی ادائیگی کے بعد اس فن سے مہارت حاصل کریں جہاں سب سے پہلے منہ ٹیڑھا کرنا سکھایاجا رہا ہے کیونکہ سیدھے منہ سے انگریزی بولی ہی نہیں جا سکتی۔منہ ٹیڑھا کرنا سیکھ جانے کے بعد نصف ٹیوشن مکمل ہو جاتی ہے۔ ہمارے یہاں سے انگریزی سیکھنے کے بعد آپ کسی بھی انگریز کو اپنی انگریزی سے حیران و پریشان کر سکتے ہیں۔ المشتہر فون نمبر 4204220
کل والی غزل ایک مصرع جو غلط چھپ گیا تھا اس طرح پڑھا جائے
پات جھڑتے رہے خزاں سے پرے
اور اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
بات کیا تجھ سے کروں
بات کیا تجھ سے کروں
بات کیا تجھ سے کروں
دن...!
کہ مرے ماتھے پر
تیری دستک کی سیاہی میں
بجھے جاتے ہیں
کتنی راتوں کی اداسی میں
سلگتے ہوئے
لفظوں کے اجالے جو چھپا رکھے تھے
اپنی سانسوں میں تیری رہ پہ
بچھانے کے لئے
دن...!
کہ جلا ڈالے ہیں
اپنے تپتے ہوئے ہاتھوں کی کڑی
سختی سے
تو نے وہ لوگ
جو کملائی جبینوں پہ اٹھا لائے تھے
تیرے جھلسے ہوئے چہرے کے لئے رنگ
تیرے پائوں میں دھرنے کے لئے
دن...!
کہ اجالے نے ترے
کیسا اندھیر مچا رکھا ہے!
بات کیا تجھ سے کروں رات
کہ آنچل میں تیرے منہ چھائے ہوئے
گھر سوتے ہیں
شہ نشینوں پہ تری چاپ کے ساتھ
کتنی آنکھیں مرے سینے میں
ابھر آتی ہیں
تیری بے انت خاموشی کے گھنے جنگل میں
کتنے خوا بوں کے خنک چاند
اتر جاتے ہیں
اور شاخوں سے تری
کوئی مہکار تلک آتی نہیں
تیری آواز مجھے بھاتی نہیں
بات کیا تجھ سے کروں میں عمر...!
کہ تھک جاتا ہوں
اور نمناک منڈیروں سے تری
میرے دن رات پھسل جاتے ہیں
تیری ممتا بھری چھاتی کی دکھن
میرے ریشوں میں اتر جاتی ہے
اور الجھتے ہوئے بالوں میں ترے
مری آواز بھٹک جاتی ہے
آج کا مقطع
اُس نے اُڑا بھی دیے غم کے غبارے ، ظفر
ہم یہ سمجھتے رہے اُس کی امانت میں ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں