نواز شریف کو دیوار سے لگایا گیا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو دیوار سے لگایا گیا‘‘ اسی لیے وہ نوشتۂ دیوار نہیں پڑھ سکے اور ایک ایسا بیانیہ پیش کر دیا جو ان کی پارٹی کے ایسے گلے پڑا کہ گلا تمام تر کوشش کے باوجود اس میں سے نہیں نکل رہا، انہیں جس دیوار سے لگایا گیا وہی ان کی پارٹی پر آ گری کیونکہ ساری باتیں دیوار نے بھی سن لی تھیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور نواز شریف نے دیواروں کے کان مروڑنے کی ہی کوشش کی تھی جبکہ یہی ان کا ریکارڈ بھی ہے کہ وہ ہر راہ چلتے بم کو لات مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجتاً ان کی اپنی چھٹی ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم نے خطے کی صورتحال نظر
انداز کی تو نقصان ان کا اپنا ہو گا: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم نے خطے کی صورتحال نظر انداز کی تو نقصان ان کا اپنا ہو گا‘‘ البتہ ہماری صورت حال کو جتنا بھی نظر انداز کرتے رہیں اس سے ہمیں فائدہ ہوگا جو اگرچہ کچھ ایسی قابلِ رشک بھی نہیں ہے؛ تاہم پی ڈی ایم کی اپنی صورت حال بھی ایسی ہی ہے اور دونوں میں کافی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اوراس سے حکومت اور اپوزیشن کے قریبی تعلقات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے، آخر کو حکومت اور اپوزیشن گاڑی کے وہ دو پہیے ہیں جن میں سے اگر ایک بھی پنکچر ہو جائے تو گاڑی آگے جانے کے قابل نہیں رہتی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عوامی دبائو بڑھایا تو حکومت چلی جائے گی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عوامی دبائو بڑھایا تو حکومت چلی جائے گی‘‘ اور حیرت ہے کہ ہمیں اس بات کا پہلے خیال ہی نہیں آیا، ورنہ حکومت کب کی جا چکی ہوتی، لیکن ہم اس کے بجائے تحریک چلا چلا کر مفت میں نڈھال ہوتے رہے اور یہ بات بھی ہمیں ہمارے قائد نے بتائی ہے جو ان کے گہرے سوچ بچار کا نتیجہ ہے کیونکہ سوچ بچار کا سارا کام وہ خود سر انجام دیتے ہیں جو قدرت نے انہیں بطورِ خاص ودیعت کر رکھا ہے اور سوچ بچار کا یہ مشکل کام وہ اس دوران معطل رکھتے ہیں جب وہ کھانے میں مصروف ہوں ۔آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
سیاسی افراتفری کی گنجائش نہیں ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سیاسی افراتفری کی گنجائش نہیں ہے‘‘ کیونکہ اگر غیر سیاسی افراتفری کی پوری پوری گنجائش موجود ہے اور اس کی اجازت بھی دے رکھی ہے تو سیاسی افراتفری مچانے کی کیا ضرورت ہے اور یہی ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم صحیح کام بھی غلط طریقے سے کرتے ہیں اور اس طرح توازن خراب ہو جاتا ہے۔ جہاں تک سیاسی افراتفری کا تعلق ہے تو وہ خود ہمارے اندر اتنی موجود ہے کہ ہم اس معاملے میں مکمل طور پر خود کفیل ہیں جبکہ ہمارا سارا نظام ہی اس کے طفیل چل رہا ہے کیونکہ آخر حرکت ہی میں برکت ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں نون لیگی رہنما پرویز ملک کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
فواد چودھری صاحب میر ے معاملات
سے فاصلہ رکھیں، بہتر رہے گا: عامر لیاقت
پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کہا ہے کہ ''فواد چودھری صاحب میرے معاملات سے فاصلہ رکھیں، بہتر رہے گا‘‘ اور ان کے ساتھ یہ میرے لیے بھی بہتر رہے گا کیونکہ کورونا بلکہ اب تو ڈینگی کا بھی موسم شروع ہو چکا ہے اور سماجی فاصلہ رکھنا ویسے بھی بہت ضروری ہو گیا ہے اور خدانخواستہ وہ کسی نہ کسی طرح متاثر ہو گئے تو اس سے نقصان حکومت کا ہو گا اور حکومت کا سارا کام رک جائے گا اور میں حکومت سے ناراض ضرور ہوں مگر اتنا بھی نہیں کہ میری وجہ سے حکومت کا سارا کام ہی رک جائے۔ اور یہ تو سارا کھیل ہی جراثیم کا ہے اور میں بھی ان کی قربت سے متاثر ہو سکتا ہوں‘ اس لیے ضروری ہے کہ وہ مجھ سے بچے رہیں اور میں ان سے۔ آپ اگلے روز کراچی سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں نیلم ملک کی یہ غزل:
روپ متی کی دید پہ عید منائی مل کے یاروں نے
دید بان اور چاند کو روتے دیکھا چاند ستاروں نے
پنگھٹ کے رستے پہ چلی اک مان میں شان حویلی کی
دھوپ جلی کی ترکھ مٹائی صحرا کے پنہاروں نے
ان دیکھے ہونٹوں نے چھوا جب کان کی لو کو ہولے سے
ہواکے تن میں لوچ بھرا تب مستی کے تلہاروں نے
کھینچے کتنے کشٹ نجانے سانس کی راس چھڑانے میں
سات سروں کی باج کو ماندا کوئل کی ٹہکاروں نے
سیتا کے بن باس کی سن کے رام کی آس لگا بیٹھے
ان مل سار میں عمر گنوائی مجھ ایسے بے ساروں نے
سورج اس کی جھکی ہوئی آنکھوں پر جھل جھل ہنستا تھا
مشک بھری کی سانسوں سے جب مہک چرائی تاروں نے
رنگ لگائے جھوم رہی تھی اک منہ زور بگولے سے
کاری کر کے مار دیا مستانی کو سرداروں نے
پُرکھوں کی تصویر پہ بالک تیر چلا کر بھاگ پڑے
خود پر سارا دوش دھرا پھر زنگ لگی تلواروں نے
آج کا مطلع
کمرے میں ہو مڈبھیڑ کہ زینے پہ ملاقات
سہتا ہوں میں اُس شوخ کی سینے پہ ملاقات