فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اورمسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہم فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں‘‘ لیکن ہماری حکومت کے مرحلے کا فیصلہ ابھی بہت دور لگتا ہے جس کے راستے کی دو بڑی دیواریں ہیں، ایک تو احتساب کیسز اور دوسری رکاوٹ پارٹی کی دھڑے بندی ہے، ایک دیوار تو پھلانگی جا سکتی ہے جبکہ کیسز کی دیوار موجود رہے گی جو نوشتۂ دیوار کی بھی حیثیت رکھتی ہے اور جسے پڑھ پڑھ کر ہم پریشان ہو رہے ہیں اور یہ وہ دیوار ہے جسے پھلانگنا کسی طور بھی ممکن نہیں جبکہ موجودہ صورت حال ووٹ کو عزت نہ دینے کا نتیجہ ہے جبکہ ووٹرز کی بھی یہاں کوئی عزت افزائی نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز وڈیو لنک کے ذریعے سوشل میڈیا سے خطاب کر رہی تھیں۔
اپوزیشن کے جلسے بے وقت کی راگنی: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کے جلسے بے وقت کی راگنی ہیں‘‘ اگرچہ یہاں وقت اور بے وقت کی راگنی میں پہلے بھی کوئی فرق نہیں رہ گیا‘ اس لئے اسے وقت کی راگنی بھی کہا جا سکتا ہے اور اگر اپوزیشن نے اپنے مارچ میں راگ ہی الاپنا ہیں تو یہ کام وہ مارچ کے بغیر بھی کر سکتی ہے، اس سے سننے والوں کو بھی مزہ آئے گا اور گانے والوں کو بھی، لیکن اگرساتھ ہی انتظامیہ نے بھی اپنی راگنی شروع کر دی تو راگ ختم ہو جائیں گے اور صرف شور باقی رہ جائے گا، اس لئے اپوزیشن کو چاہیے کہ فی الحال اپنے وسائل وغیرہ سنبھال کر رکھے۔ آپ اگلے روز سرگودھا ہسپتال مظفر گڑھ میں ہلاکتوں پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے۔
حکومت کی اُلٹی گنتی شروع ہو
چکی ہے: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت کی اُلٹی گنتی شروع ہو چکی ہے‘‘ اور جس کی اطلاع ہم پہلے بھی کئی بار دے چکے ہیں لیکن یہ ہر بار دوبارہ سیدھی ہو جاتی ہے اور ہمیں اس کا اعلان بھی بار بار کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمارا سارا اعلان بھی اُلٹا ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہماری زبان میں کوئی تاثیر ہی نہیں رہی حالانکہ ہم خاصے اصول پسند واقع ہوئے ہیں اور ہمیشہ سیدھے راستے پر ہی چلتے رہے ہیں اور حتیٰ کہ ہم گھی بھی سیدھی انگلیوں سے ہی نکالتے ہیں۔آپ اگلے روز سانحہ کار ساز کے شہداء کی یاد میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف مگرمچھ کے آنسو بہا رہے : شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں‘‘ اور ہم حیران ہیں کہ انہیں یہ آنسو بہانے کے لئے لندن میں مگرمچھ کہاں سے ملا ہے اور انہوں نے اپنے آنسو کس وقت کیلئے بچا کر رکھے ہوئے ہیں حالانکہ وہ اپنی اس صورتِ حال پر خون کے آنسو بھی بہا سکتے ہیں، جبکہ مگرمچھ کے آنسو بہانے کا کوئی جواز بھی نہیں ہے کیونکہ مگرمچھ نے اُن کے آنسو کبھی نہیں بہائے ہوں گے جبکہ آنسو بہانے جیسے چھوٹے سے کام کے لئے دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے آدمی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے، بہرحال ہمیں اس مگر مچھ کے ساتھ ہمدردی ہے جس کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ آپ اگلے روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اہلخانہ سے اظہارِ تعزیت کر رہے تھے۔
اپوزیشن کو کسی این آر او کی
ضرورت نہیں ہے: رانا تنویر
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کو کسی این آر او کی ضرورت نہیں ہے‘‘ اگرچہ اس پر انگور کھٹے ہیں کا جملہ بھی کسا جائے گا کیونکہ بعض شرپسندوں کا کام ہی دن رات ایسے جملے کسنا ہے حالانکہ کوئی بھی جملہ ڈھیلا نہیں ہوتا اور سبھی کسے کسائے ہوتے ہیں؛ البتہ ہم نے یہ انگور اس لئے نہیں کھائے کہ یہ واقعی کھٹے تھے ورنہ ہم ان تک پہنچنے کے لئے کسی سیڑھی وغیرہ کا بھی انتظام کر سکتے تھے اور خدا لگتی بات یہی ہے کہ اگر این آر او نہیں ملتا تو اس کے بجائے اور کیا کہا جا سکتا ہے اور شاخ سے توڑنے کے بجائے انگور بازار سے خرید کر بھی کھائے جا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز مختلف لیگی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
پڑنے پہ جو اُفتاد کروں شور زیادہ
اُفتاد بڑھا دوں میں بہر طور زیادہ
تھکنا ہے بجا میرا کہ لگنا جہاں کم ہو
ہر بار لگا دوں میں وہاں زور زیادہ
فطری ہے کہ ممکن نہ رہے بچ کے نکلنا
سامان اٹھا لیتا ہے جب چور زیادہ
سب لوگ سمجھتے ہیں کہیں کٹ نہ گئی ہو
گڈی کو میں جب دینے لگوں ڈور زیادہ
شاید کوئی انگارہ سی تحریر ہو پنہاں
جلنے لگی راتوں کو مری پور زیادہ
کچھ روز سے کچھ بھی سمجھ آتا نہیں مجھ کو
کچھ روز سے کرنے لگا ہوں غور زیادہ
لگتا ہے کہ ملہار نہ گایا گیا ہم سے
اس بار جو بادل نہیں گھنگھور زیادہ
کیسے نہ نوید اور شرابور رہوں میں
بارش میں جو رقصاں ہو مرا مور زیادہ
آج کا مقطع
آنکھوں سے آتے جاتے الجھتا ہے اے ظفرؔ
دیوار پر لکھا ہوا کچھ اُس کے ہاتھ کا