وزیراعظم جس معاملے میں ہاتھ ڈالتے
ہیں وہاں تبدیلی نہیں، تباہی آتی ہے:بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم جس معاملے میں ہاتھ ڈالتے ہیں‘ وہاں تبدیلی نہیں، تباہی آتی ہے‘‘ مثلاً انہوں نے پی ڈی ایم میں ہاتھ ڈالا اور اس کا شیرازہ ہی بکھر کر رہ گیا، اس کے علاوہ احتساب کے اداروں نے ہمارے معاملے میں ہاتھ ڈالا اور ہمیں کئی ارب کا ٹیکا لگا کر ہماری خون پسینے کی کمائی میں ایک بڑا ڈینٹ ڈال دیا بلکہ اگر ایمانداری اور غور سے دیکھیں تو یہ تباہی بھی ایک طرح سے تبدیلی ہی ہے جس سے وزیراعظم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے، اگرچہ ہم تبدیلی اپنے طریقے سے لائے تھے لیکن وزیراعظم عمران خان کا تبدیلی کا اپنا طریقہ ہے اور کام دراصل وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے طریقے سے کیا جائے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں پارٹی عہدیداران سے خطاب کر رہے تھے۔
حصولِ انصاف اور حکومت کے راستے
میں تجربہ کار مافیا ہے: شہزاد اکبر
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ''حصولِ انصاف اور حکومت کے راستے میں تجربہ کار مافیا ہے‘‘ اس لیے وہ زیادہ تر معاملات مثلاً شوگر مافیا کے حوالے سے اب تک کوئی انصاف نہیں کر سکی جس کے لیے وہ اپنے مخالفین کے برابر تجربہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ اس مافیا کا مقابلہ کر سکے جبکہ دوسرے مافیاز کے لیے اسے دوسری طرح کا تجربہ حاصل کرنا پڑے گا۔ اس لیے فی الحال تو یہ سارے مافیاز موجیں مان رہے ہیں اور حکومت کے راستے کی دیوار بنے ہوئے ہیں جن کے درمیان سے حکومت کوئی راستہ نکالنا چاہتی ہے لیکن دیوار کو توڑ کر ہی اس میں راستہ بنایا جا سکتا ہے جو فی الحال ممکن نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پی ٹی آئی لائرز ایسوسی ایشن سے خطاب کر رہے تھے۔
اس وقت پنجاب میں ایک نہیں
چار چار وزیراعلیٰ ہیں: عظمیٰ بخاری
نواز لیگ کی پنجاب میں ترجمان عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ ''اس وقت پنجاب میں ایک نہیں، چار چار وزیراعلیٰ ہیں‘‘ جبکہ ہم اس صوبے میں ایک ہی وزیراعلیٰ پر گزر اوقات کرتے رہے ہیں حالانکہ ہمیں بھی اتنے ہی وزرائے اعلیٰ کی ضرورت ہوا کرتی تھی کیونکہ جو کام وہ کرتے تھے، اس کے بعد حکومت چلانے کے لیے ان کے پاس ایک لمحہ بھی نہیں بچتا تھا اور اگر تھوڑا بہت وقت بچتا بھی تھا تو وہ یہ بیان دینے میں صرف ہو جاتا تھا کہ انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی اور کبھی انہیں یہ بیان دینا پڑتا کہ انہوں نے ایک پائی کی کرپشن نہیں کی جبکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انہیں کچھ پتا نہیں تھا کہ ان کے اور ان کے بچوں کے اکائونٹس میں پیسے کون ڈال جاتا تھا، آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
سہ ماہی تفہیم
راجوری مقبوضہ جموں و کشمیر سے یہ جریدہ عمر فرحت کی ادارت میں شائع ہوتا ہے جس کا یہ 23 واں شمارہ ہے جبکہ یہ اردو بازار سے بھی شائع ہوتا ہے‘ جس میں پاک و ہند کے ممتاز اہلِ قلم کی نگارشات باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں، حصۂ مضامین کا آغاز ہمارے مہربان دوست گوپی چند نارنگ کے مقالے سے ہے۔ اس کے علاوہ عتیق اللہ، قاضی افضال حسین، ناصر عباس نیّر اور ڈاکٹر لیاقت نیّر نمایاں ہیں۔ غالبؔ کے حوالے سے نظام صدیقی سے مکالمہ ہے جو دیبا سلام نے کیا ہے۔ دوسرا مکالمہ ڈاکٹر اورنگزیب نیازی سے ہے جو عمر فرحت نے کیا ہے۔ خاکسار کا گوشہ ہے جس میں نظام صدیقی اور قاضی جمال حسین کے مضامین اور دس غیر مطبوعہ غزلیں ہیں۔ ان کے علاوہ لکھنے والوں میں مشرف عالم ذوقی، علی اکبر ناطق، محمد حمید شاہد کے سات افسانے اور مکالمہ شامل ہے۔ شاعری میں وحید احمد، پروفیسر صادق، کرشن کمار طور، محمد اظہار الحق، شہپر رسول اور اسحاق وردگ نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ علی اکبر ناطق کی جانب سے تبصرہ ہے۔ ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر تحسین فراقی کی تازہ غزل:
جو میں نے چپکے چپکے کی دعا اس تک بھی پہنچی
خدا کا شکر ہے ٹھنڈی ہوا اس تک بھی پہنچی
بڑا ہی مطمئن مجھ کو نظر آیا وہ کل شب
شکستِ شیشۂ دل کی صدا اس تک بھی پہنچی
غرورِ حسن نے اس کو کسی قابل نہ سمجھا
بہت سوں کی طرح پِس کر حنا اس تک بھی پہنچی
بہت نایاب دولت دان کی بیٹی کو ماں نے
جو ماں کے پاس تھی کامل حیا اس تک بھی پہنچی
وہی کل جس نے صحرا میں تڑپ کر جان دے دی
سنا یہ ہے کہ اک طرفہ دوا اس تک بھی پہنچی
چلا کوہِ ندا کی سمت یا گھر لوٹ آیا
نہیں معلوم لیکن یہ ندا اس تک بھی پہنچی
نہیں معلوم کھائی اس نے یا سائل کو دے دی
میاں ستّو کے لنگر کی غذا اس تک بھی پہنچی
آج کا مقطع
ڈھونڈا کیے چابی ہی ظفرؔ جس کی ہم اک عمر
دروازے پہ اُس کے کوئی تالا ہی نہیں تھا