سب کچھ یہیں پڑا رہ جاتا ہے اور آدمی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارا بے مثل شاعر بھی ہاتھ سے نکل گیا اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ نہیں مرا، میں مر گیا ہوں کیونکہ میں نے اسے کبھی اپنے آپ سے الگ نہیں سمجھا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دُکھ کی اس گھڑی میں مرحوم پر لکھا بھی نہیں جا رہا اور میں اسے زندہ مرحوم کہوں گا۔ اس لیے بھی کہ اس کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس نے ایک طویل علالت بھگتی، خود ڈاکٹر ہونے کے باوجود جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے بروقت آگاہ نہ ہو سکا، ہوا بھی تو اس وقت جب ناقابلِ تلافی نقصان ہو چکا تھا اور ہزار کوشش کے باوجود کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
میں ہر ہفتے بڑے فخر اور چائو سے اپنے کالم میں اس کی نظم چھاپتا رہا ہوں۔ اس نے مجھے کئی بار روکا بھی کہ اس امتیازی سلوک پر کچھ لوگ معترض بھی ہیں لیکن میں ان نظموں سے قارئین کو محروم نہیں رکھنا چاہتا تھا ؛چنانچہ جہاں میری غزل ہر ہفتے شائع ہوتی، اس سے اگلے روز اس کی نظم اپنے جلوے بکھیر رہی ہوتی۔ اس کی آزاد نظمیں تو لاجواب ہیں ہی، اس کی نثری نظمیں بھی مجھے حیران کر دیتی ہیں۔ نذیر قیصر کے بقول شعر وہ ہوتا ہے جو آپ کو حیرت زدہ کر دے۔ وہ اتنی زوردار ہوتیں کہ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ایک زبردست نثار بھی تھا۔ نثری نظم ویسے بھی زورِ بیان کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ موزونیت کا دُم چھلا نہیں لگا ہوتا اور ایسے لگتا ہے کہ نظم گو نہیں، یہ کوئی فکشن رائٹر ہے جو اپنے کمالات دکھا رہا ہے۔
اب اس سے آگے نہیں لکھا جا رہا اس لیے اس کی کچھ نظموں سے اپنے دیدہ و دل روشن کیجیے:
چہل قدمی کرتے ہوئے۔۔۔۔۔
کہیں کوئی بستی ہے
خود رو جھاڑیوں اور پھولوں سے بھری
جہاں بارش
بے آرام نہیں کرتی
چھینٹے نہیں اڑاتی
صرف مہکتی ہے۔۔۔۔۔
مٹی سے لِپے گھروں میں
ہوا شور کرتی
آوازیں سوئی رہتی ہیں
کوئی سرسراہٹوں بھرا جنگل ہے
پگڈنڈیوں اور درختوں کے درمیان
انجان پانیوں کی جانب، نہریں بہتی ہیں
اور راستے کہیں نہیں جاتے
پرندوں کی چہکاریں، لامتناہی عرصے کے لیے
پتّوں کو مرتعش کر دیتی ہیں
دنیا سے الگ
کہیں ایک باغ ہے
غیر حتمی دوری پر
سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا
کہیں کوئی آواز ہے
بے نہایت چُپ کے عقب میں
بے خال و خد، الوہی، گمبھیر
کہیں کوئی دن ہے
بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا
اور کوئی رات ہے
اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ہمراہ
جس میں مجھے داخل ہو جانا ہے
یونہی چہل قدمی کرتے ہوئے
اور بجھے آتش دان کے پاس
بیٹھ جانا ہے
تمہارے مرجھائے چہرے کی چاندنی میں
کسی مٹیالی دیوار سے
ٹیک لگا کر۔۔۔۔
بات تو ایک ہی ہے
آہستہ چلیں یا تیز
ایک بار ہی آنسو بہا دیں
یا انہیں اپنے اندر جمع رکھیں
ڈھیروں باتیں کریں
یا چپ کی دھول میں لپٹے رہیں
اجلے لباس پہنیں
یا موسموں کی چادر اوڑھے رہیں
خاک کی طرح بیٹھ رہیں
یا اونچی ہوائوں میں اڑتے پھریں
دیوار کے ساتھ لگے رہیں
یا در در کی ٹھوکریں کھائیں
بات تو ایک ہی ہے
بارشوں میں نہائیں
یا دھوپ میں سوکھتے پھریں
میٹھی نیند سوئیں
یا عمر بھر کا رت جگا منائیں
اُسے دیکھیں
یا اس سے بے نیازہو جائیں
محبت کریں
یا ایک فضول نفرت کے ہم ر اہ
زندگی سے گزریں
بات تو ایک ہی ہے
رومان بھری اداسی
یا پر تشدد اکتاہٹ
خود فریبی کے پھول
یا سچائی کی ضربیں
بچپن کے جھولے
یا پختہ عمر کے جھٹکے
آہستہ خرام سفر
یا راستوں کو ادھیڑتے ہوئے
سموں کا شور
اضمحلال اور اندھیرا گرنے کی رفتار تو ایک سی رہتی ہے
جہاں بالآخر ہمیں پہنچنا ہے
ہم نہ بھی چاہیں
تو ایک دن پہنچا دئیے جائیں گے!
آج کا مقطع
اب دل کے خاکداں میں اسے ڈھونڈیے ظفرؔ
جو کہکشاں کی راگزر سے نکل گیا