حکومت کو بحیرئہ عرب میں غرق کرنا ہوگا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کو بحیرئہ عرب میں غرق کرنا ہوگا‘‘ جبکہ یہ تجویز میرے شبانہ روز کے غور و خوض کا نتیجہ ہے کیونکہ کسی دریا حتیٰ کہ دریائے سندھ میں غرق کرنے سے بھی اس کا قلع قمع نہیں ہوگا اور یہ ہاتھ پاؤں مار کر پھر باہر نکل آئے گی؛ چنانچہ اگلے اجلاس میں ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ سمندر میں اسے کس مقام پر غرق کیا جائے جہاں سے وہ کسی طرح بھی باہر نہ نکل سکے اور وہیل مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہ بھوکی وہیل مچھلیوں پر ہمارا عظیم احسان بھی ہو گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں مہنگائی کے خلاف ایک مظاہرے سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم موسمی بیماری ہے جو ہر
سردیوں میں آتی ہے: مراد سعید
وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم موسمی بیماری ہے جو ہر سردیوں میں آتی ہے‘‘ اور جس طرح ہم نے کووِڈ 19کا مقابلہ کیا ہے‘ اس کا بھی کریں گے لیکن یہ پھر بھی اپنی میعاد پوری کر ہی لیتی ہے اور اس پر ہماری تیار کردہ کوئی ویکسین اثر نہیں کرتی اور سردیوں کے آتے ہی ہمیں ڈینگی کے ساتھ ساتھ اس کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کے شروع ہوتے ہی گیس کا بحران بھی سر اٹھانا شروع ہو جاتا ہے جس سے ہماری کارکردگی تومتاثر ہوتی ہے مگر اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور بالآخر ہم گرمیوں کا انتظار شروع کر دیتے ہیں تاکہ اس سے نجات کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔ آپ اگلے روز کرک میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اناڑی حکومت نے ہماری محنت
پر پانی پھیر دیا: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''اناڑی حکومت نے ہماری محنت پر پانی پھیر دیا‘‘ کیونکہ اسے خود تو محنت کرنا آتی ہی نہیں، وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہمارے قائدین ہماری بیشتر محنت پہلے ہی اُٹھا کر بیرونی ممالک میں لے گئے تھے؛ تاہم جو ہماری بچی کھچی محنت تھی ‘اس پر حکومت کو پانی پھیرنے کا موقع مل گیا؛ البتہ باہر پہنچائی گئی ہماری ساری محنت پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہی ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، مگر احتساب کیسز کے ذریعے اس پر بھی حتی الامکان پانی پھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز رانا تنویر سے ان کے بھائی کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کر رہے تھے۔
حکومت اور اتحادی اکٹھے آئے
اکٹھے جائیں گے: حسان خاور
وزیراعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی حسان خاور نے کہا ہے کہ ''حکومت اور اتحادی اکٹھے آئے تھے، اکٹھے جائیں گے‘‘ اور یہ ایک سیدھی سی بات ہے کہ حکومت جائے گی تو ساتھ ہی اتحادی بھی چلے جائیں گے اور وہ اسی لئے ہمارے ساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں۔ ویسے بھی یہ دنیا فانی ہے اور سب نے ایک دن جانا ہے اور ہر انسان کے علاوہ‘ ہر حکومت کی تقدیر میں بھی روزِ ازل ہی سے لکھ دیا جاتا ہے کہ اس نے جانا کب ہے۔ اور یہ نہیں ہو سکتا کہ حکومت توچلی جائے لیکن اتحادی باقی رہ جائیں کیونکہ ہم آپس میں لازم و ملزوم بھی ہیں۔ آپ اگلے روز گورنر ہاؤس لاہور میں ذیابیطس کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت کے چہرے سے
نقاب اُترچکا ہے: خواجہ آصف
نواز لیگ کے رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''حکومت کے چہرے سے نقاب اُتر چکا ہے‘‘ اور ہمارا یہ معاملہ اس لئے نہیں ہے کہ ہم نے کبھی نقاب پہنا ہی نہیں تھا اور کھلے عام سب کی آنکھوں کے سامنے وہ سب کچھ کرتے رہے ہیں جس سے ہمارے مخالفین کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں کیونکہ نقاب اوڑھ کر کام کرنا بزدلوں کا کام ہے جبکہ ہماری دلیری بلکہ دیدہ دلیری کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی، ماسوائے ایک اور پارٹی کے جو ہمارے مقابلے میں وہ سب کچھ کر رہی ہے‘ جس پر ساری دنیا حیران و پریشان ہے کہ سب کی آنکھوں کے سامنے ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز مراد پور میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اقتداو جاوید کی نظم:
سرخ مینار پر نصب
زمانے میں ہے اک گھڑی / آخری کھونٹ میں / سرخ مینار پر نصب/ کوئی بھی اس سمت جاتا نہیں ہے/ کئی راز ہیں اس جگہ کے / مگر کوئی رازوں سے پردہ اٹھاتا نہیں ہے/ زمانے کی آنکھوں سے اوجھل کھڑی/ دائمی وقت پر اک گھڑی / میں جڑا ہوں/ اسی دائمی وقت سے / جوزمانے سے اوجھل کھڑے/ سرخ مینار والی گھڑی پر کھڑا ہے/ مگر کون جانے / گھڑی کون سے وقت پر/ منجمد ہوگئی تھی/ وہ کیسی پُراسرار طاقت تھی/ جو وقت آگے بڑھاتی تھی/ اور سوئیوں کی پُراسرار ٹک ٹک / زمانوں میں رستے بناتی تھی/ ماضی کو ماضی بھرے غار میں ڈالتی تھی/ اجالوں میں لاتی تھی دن/ چپ درختوں کے تاریک سائے میں / گم صم کھڑی کچھ بتاتی نہیں ہے/ وہ کیسی نگاہوں کو بھرتی ہوئی/ صبحِ خنداں تھی/ کیسی سیہ رات تھی / کس پہاڑی کے پیچھے/ افق لال کرتے ہوئے شام اتری تھی/ جب وہ گھڑی رک گئی تھی / کوئی تو بتائے/ کوئی تو زمانوں کے بوجھل سیہ رنگ/ پردے اٹھائے، ہوا کوئی آئے/ اڑائے، مجھے لے کے جائے/ درختوں کے پیچھے کھڑے / سرخ مینار کے پاس / کہنہ گھڑی سے ملائے مرا وقت/ میں خود ہوں بچھڑا ہوا وقت سے/ جاکے خود کو گھڑی سے ملائوں/ گھڑی بھر گھڑی کو میں دیکھوں / میں لَے میں اترتے ہوئے/ خود کو، طاقت بھری سوئیوں سے ملائوں / میں خود چل پڑوں / میں گھڑی کو چلائوں!
آج کا مطلع
پڑے ہم کو ہی اٹھانے سارے
دکھ نئے اور پرانے سارے