حکومت گرانے کیلئے کارواں چل پڑا، کسی
میں روکنے کی طاقت نہیں، فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کے لیے کارواں چل پڑا، کسی میں روکنے کی طاقت نہیں‘‘ ماسوائے میاں نوازشریف کے جنہیں میں نے کہہ دیا تھا کہ میں گھر سے نکل پڑا ہوں اورعوام بھی رفتہ رفتہ نکل آئیں گے لیکن انہیں شاید نجوم کا علم حاصل ہو گیا تھا کہ عوام نہیں نکلیں گے اس لئے انہوں نے لانگ مارچ سے روک دیا لیکن میں بدستور نکلا ہوا ہوں تاکہ بالکل ہی بے روزگار ہو کر نہ رہ جائوں جبکہ ویسے بھی حرکت میں برکت ہوتی ہے اگرچہ ہماری حرکت میں برکت نظر نہیں آرہی جبکہ بہت سی برکت ہم اب تک کی بھاگ دوڑ میں استعمال کر چکے ہیں۔ آپ اگلے روز رحیم یار خاں میں مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا امجد اور راشد محمود سومرو کے ہمراہ خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب پولیو فری ہو گیا، عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''پنجاب پولیو فری ہو گیا ہے‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت فری کب ہوتا ہے جس کے لیے مختلف طاقتیں ایک عرصے سے کوششیں کر رہی ہیں۔ اگرچہ کسی کی محنت ضائع نہیں جاتی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ دیر ہے اندھیر نہیں اس لئے ان عناصر کو مایوس نہیں ہونا چاہئے اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اگرچہ ہم نے بھی یہ دامن بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے جس سے ہمارے ہاتھ شل ہو کررہ گئے ہیں کیونکہ ان ہاتھوں نے اور بھی بہت سی چیزیں پکڑ رکھی ہیں حتیٰ کہ ہم خود بھی ایک طرح سے تنگ آ گئے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ فراخی کی مزید گنجائش نہیں ہے۔ آپ اگلے روز محکمہ صحت کے حکام کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
نااہل ٹولے نے عوام سے
جینے کا حق چھین لیا، بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نااہل حکومتی ٹولے نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا‘‘ اس لئے عوام کو ہمارا انتظار کرنا چاہئے کیونکہ ہم آتے ہی عوام کو یہ حق واپس دلوا دیں گے چنانچہ وہ اس وقت تک اگر جی نہیں سکتے تو یہ ان کی مرضی تاہم جو عوام اپنی سخت جانی کے باعث بچ پائیں گے انہیں ہم یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ پسند کریں تو انہیں ہم جینے کا حق ضرور دلائیں گے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک وفد سے گفتگو اور کارکنوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
ریسٹورنٹس میں قطاریں لگی ہیں، گاڑیوں
کے آرڈرز آ رہے ہیں، شوکت ترین
مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''ریسٹورنٹس میں قطاریں لگی ہیں، گاڑیوں کے آرڈرز آ رہے ہیں‘‘ اس لئے ملک میں غربت کہاں ہے کیونکہ جن لوگوں کو گھروں میں کھانا میسر نہیں وہ ریستورانوں کا رخ کرتے ہیں اور جتنی دیر بھی کھڑا رہنا پڑے قطار میں کھڑے رہتے ہیںجبکہ عوام کی خدمت کے لیے بھی ملک میں ریستورانوں کا جال بچھا ہوا ہے اور جن کے پاس وہاں جانے کا وقت نہیں ہوتا وہ پناہ گاہوں میں آکر پیٹ بھر لیتے ہیں اور جو افراد پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے وہ یہ کام اپنی گاڑیوں میں سرانجام دیتے ہیں جبکہ نئی گاڑیوں کے آرڈرز بھی اوپر تلے موصول ہو رہے ہیں، خوشحالی اور کیا ہوتی ہے‘ہیں جی؟ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ووٹ چوری سے جمہوری نظام کو دھبہ لگا
عوامی رائے کی توہین کی گئی، شہبازشریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ڈسکہ میں ووٹ چوری سے نظام کو دھبہ لگا، عوامی رائے کی توہین کی گئی‘‘ جبکہ کرپشن اور منی لانڈرنگ سے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ یہ اسی طرح چلتا رہا ہے بلکہ زیادہ کامیابی سے چلتا رہا ہے اور اس سے عوامی رائے کی توہین بھی نہیں ہوتی کیونکہ عوامی رائے تو موجود ہی نہیں ہوتی اور حکمران ہی عوامی رائے کی تصویر بنے ہوتے ہیں، جس سے جمہوری نظام بھی مزید نکھر اور سنور کر سامنے آتا ہے جبکہ ہمارے دور میں ووٹ چوری نہیں ہوتے تھے بلکہ ویسے ہی اِدھر اُدھر ہو جایا کرتے تھے اور جو ایک روٹین کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ آپ اگلے روز چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ رہے تھے۔
اور اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم
آنکھ بھر اندھیرا...
چمکتی ہیں آنکھیں
بہت خوب صورت ہے بچہ
وہ جن بازوئوں میں
مچلتا ہے، لَو دے رہے ہیں
چہکنے لگے ہیں پرندے
درختوں میں پتے بھی ہلنے لگے ہیں
کہ لہراتے رنگوں میں
عورت کے اندر سے بہتی ہوئی روشنی میں
دمکنے لگی ہے یہ دنیا...
وہ بچہ ... اُسے دیکھے جاتا ہے
ہنستے، ہمکتے ہوئے
عورت بھی کچھ
زیر لب گنگنانے لگی ہے
لجاتے ہوئے...
کسی سرخوشی میں
بڑھاتا ہے وہ ہاتھ اپنے
تو بچہ... اچانک پلٹتا ہے
اور ماں کے سینے میں چھپتا ہے
عورت سڑک پار کرتی ہے
تیزی سے، گھرا کے
چلتی چلی جا رہی ہے
ادھر کوئی
آندھی سی چلتی ہے
دیوار گرتی ہے
شاعر کے دل میں
وہیں بیٹھ جاتا ہے
اور جوڑتا ہے یہ منظر
آج کا مقطع
ہے دھاندلی کا شور ظفر کی زبان پر
حالانکہ وہ مقابلہ ہارا درست ہے