لاہور کا الیکشن ہمارے لیے زندگی اور
موت کا سوال ہے: راجہ پرویز اشرف
سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''لاہور کا الیکشن ہمارے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے‘‘ اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر ہم الیکشن جیت گئے تو دوبارہ جی اٹھیں گے، اگرچہ الیکشن جیتنے کے آثار کچھ کم ہی ہیں مگر امید پر دنیا قائم ہے اور ہم ویسے بھی خاصے پُرامید واقع ہوئے ہیں اور ہم اپنی پچھلی درخشندہ روایات کو برقرار رکھیں گے، مثلاً روپے کو ہم نے مسلسل گردش میں رکھا، بیشک وہ مشکوک اکائونٹس کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔ آپ اگلے روز شہلا رضا اور دیگر رہنمائوں کے ہمراہ ٹکٹ ہولڈرز سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت پر تنقید کرنے والے اپنے
گریبان میں جھانکیں: وزیراعلیٰ محمود خان
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ ''حکومت پر تنقید کرنے والے اپنے گریبان میں جھانکیں‘‘ اور اگر وہ ڈیوڈورنٹ استعمال نہیں کرتے تو وہ نہایت پریشان کن صورتحال سے دوچار ہوں گے ؛چنانچہ جہاں وہ دیگر اخراجات برداشت کرتے ہیں‘ کچھ پیسے اس ضروری چیز کیلئے بھی خرچ کر لیا کریں، اور اگر وہ مہنگائی وغیرہ کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ گریبان میں جھانکنے سے پہلے قمیص کے بٹن نہ کھولیں ، یا کم از کم دوسروں پر تنقید ہی نہ کریں تاکہ ایسی نوبت نہ آئے۔ آپ اگلے روز بٹگرام میں کارکنوں سے ملاقات اور ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
ہر محب وطن چاہتا ہے ملک
کو قرضہ نہ لینا پڑے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''ہر محب وطن چاہتا ہے کہ ملک کو قرضہ نہ لینا پڑے‘‘ اور ہم قرضہ لینے پر اس لئے مجبور ہیں کہ اس وقت سخت معاشی حالات درپیش ہیں‘؛ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہم چاروناچار اپنی حب الوطنی میں بھی اضافہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کم از کم مستقبل میں ہمیں قرضہ لینے پر مجبور نہ ہونا پڑے جبکہ باشعور ہونے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر کسی چیز کی کوئی کمی اپنے آپ میں محسوس ہو جائے تو اسے جلد از جلد دور کرنے کی سعی کی جائے، اس لئے یہ کسر نکلتے ہی ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ آئندہ قرضے نہ لے سکیں کیونکہ بندے کا کام کوشش کرنا ہے اور اس میں کامیابی خدا تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
مانگے تانگے کی حکومت میں اس وقت
آدھے وزیر ہمارے ہیں: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''مانگے تانگے کی حکومت میں اس وقت آدھے وزیر ہمارے ہیں‘‘ جو محض جذبۂ خیر سگالی کے تحت پی ٹی آئی کو دیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ وہاں کافی تنگ ہیں کیونکہ وہاں انہیں وہ ریل پیل میسر نہیں ہے جو ہمارے ہاں دستیاب تھی، اور جو تھوڑا بہت دال دلیا وہ کر رہے ہیں کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں اُسے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کہا جا سکتا ہے لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ گھبرائیں نہیں، اور وزیراعظم صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں‘ امید ہے کہ ہماری حکومت بہت جلد آنے والی ہے اور ہم انہیں واپس بلا لیں گے اور پھر اگلی پچھلی ساری کسر نکل جائے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت ناکامی تسلیم کرے اور
انتخابات کرائے: شہبازشریف
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف‘ نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''حکومت ناکامی تسلیم کرے اور انتخابات کرائے‘‘ اگر وہ اپنی ناکامی تسلیم کئے بغیر ہی انتخابات کرا دیتی ہے تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ اول تو اس وقت تک شاید ہم میں سے بہت سے شاہی مہمانوں کی حیثیت اختیار کر چکے ہوں کیونکہ مقدمات کی سماعت میں تیزی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب ان کے ارادے کافی خطرناک لگتے ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر جیل خانہ جات نے ایک بار پھر یقین دہانی کرائی ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کیلئے تمام تر سہولیات بہم پہنچانے کا انتظام کیا جا رہا ہے اور انہیں گھر جیسا آرام بھی مہیا کیا جائے گا۔ آپ اگلے روز متحدہ عرب امارات کو اس کے قومی دن پر مبارکباد کا پیغام دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل
جدائی بھی نہیں تھی، بیوفائی بھی نہیں تھی
محبت اپنا کوئی گیت گائی بھی نہیں تھی
وہ شکل شکلوں میں تھی شکل ہی سی شکل کوئی
جو یاد بھی نہ رہی اور بھلائی بھی نہیں تھی
خموش رہ کے ہی اپنا لڑا مقدمہ ہم نے
بیاں بھی تھا نہیں کوئی، صفائی بھی نہیں تھی
وہ کائنات کہاں رہ گئی تھی ہم جس کو
بگاڑ بھی نہ سکے اور بنائی بھی نہیں تھی
لگا دیا جو غلط راستے پر دنیا کو
سو‘ یہ بھلائی نہیں تو برائی بھی نہیں تھی
ہم اپنے آپ ہی رخصت ہوئے زمانے سے
ہماری موت ابھی ہم کو آئی بھی نہیں تھی
چلا ہوا تھا کسی کے ادھار پر سب کام
خسارہ تو نہیں تھا اور کمائی بھی نہیں تھی
ہم اپنے ساتھ لپٹ کر ہی سو رہے آخر
کہ ٹھنڈ بھی تھی بہت اور رضائی بھی نہیں تھی
ہمارے بارے میں وہ سوچتا ہی کیوں تھا‘ ظفرؔ
ہماری جس سے کوئی آشنائی بھی نہیں تھی
آج کا مطلع
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
لاکھ تُو کہتا پھرے میرا تو اپنا رنگ ہے