"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں متن اوراسد عباس خان کی شاعری

حکومتی کارکردگی سے ملک 30سال
پیچھے چلا گیا ہے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومتی کارکردگی سے ملک 30سال پیچھے چلا گیا ہے‘‘ جسے ہم اس کے مقام پر واپس لانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں لیکن چونکہ عرصہ اور فاصلہ بہت زیادہ ہے اس لیے ہم اسے سال بہ سال ہی واپس لانے کی سعی کریں گے جس میں اگرچہ ہمیں بھی 30سال لگ جائیں گے؛ البتہ اس میں ہمیں کم از کم ایک مصروفیت تو میسر ہوگی کیونکہ ملکی ترقی کے لیے روز کا ایک بیان دینا بھی کافی نہیں ہوگااس لیے ہمیں دونوں کام بیک وقت کرنا ہوں گے؛ اگرچہ ایک کام ایک ہی وقت میں کرنا زیادہ مستحسن ہے لیکن ملک کی خاطر کوئی قربانی بھی دینی چاہئے۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم کو اقتدار عوام کے لیے چاہیے: اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کو اقتدار عوام کے لیے چاہیے‘‘ اگرچہ اکثر اس سے متفق نہیں ہیں کیونکہ مہنگائی نے عوام کا جو حشر کر دیا ہے‘ اس کے بعد اُن سے ایسی توقع بھی نہیں کی جا سکتی، بلکہ اب تک وہ اتنا سبق حاصل کر چکے ہیں اور جتنا وہ صبر کر چکے ہیں یا جتنا وہ گھبرانے سے باز آ چکے ہیں‘ اب تو وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں کسی کی بھی حکومت نہ ہو کیونکہ دوسری پارٹیوں کی حالت کچھ زیادہ ہی ابتر ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی طرح کسی ایسی مشین کا انتظام کیا جائے جس سے حکومت اپنے آپ ہی چلتی رہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی اور ملک کا مستقبل
اکٹھے نہیں چل سکتے:سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی اور ملک کا مستقبل اکٹھے نہیں چل سکتے‘‘ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ان دونوں کو کسی خطرے سے بچتے ہوئے خود ہی علیحدہ علیحدہ چلنا چاہئے اور اسی طرح اپنی اپنی منزل سر کرنی چاہئے، جیسا کہ ہم نے کیا تھا بلکہ اسی وقت سے ملک کے مستقبل کو علیحدہ چلنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور وہ ٹھیک ٹھاک چل بھی رہا ہے، بیشک ہماری رفتار کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا؛ البتہ ہمیں پتا ہی نہیں چلا اور ملک کے مستقبل نے پیچھے کی طرف چلنا شروع کر دیا کیونکہ ہم اس سے اتنا آگے نکل گئے تھے کہ پیچھے مُڑ کر دیکھ ہی نہ سکے۔ آپ اگلے روز دیگر پارٹی رہنمائوں کے ہمراہ صوبائی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
احساس پروگرام کی قانونی حیثیت
کے لیے آرڈیننس لا رہے ہیں: ثانیہ نشتر
وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے خاتمۂ غربت سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ ''احساس پروگرام کی قانونی حیثیت کے لیے آرڈیننس لا رہے ہیں‘‘ بلکہ حکومت کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بھی آرڈیننس لانے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ ساری کی ساری اپوزیشن اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کرتی جس کے لیے ہمارے پاس یہ ایک ہی نسخۂ کیمیا ہے اگرچہ اس کی ایک میعاد ہوتی ہے جب تک یہ کارگر رہتا ہے، لیکن کوئی بات نہیں‘ اگرمیعاد ختم بھی ہو جائے تو نیا آرڈیننس آ سکتا ہے، اس کے بعد تیسرا‘ چوتھا، پانچواں بھی کیونکہ یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم قانونی حیثیت کے بغیر ہی حکومت کرتے رہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں شریک تھیں۔
معاشی صورتحال انتہائی خراب، پی ٹی آئی
اور ملک اکٹھے نہیں چل سکتے: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے، پی ٹی آئی اور ملک اکٹھے نہیں چل سکتے‘‘ اگرچہ ہمارے چند دوسرے پارٹی رہنما بھی یہی بات کرچکے ہیں اور میں اسے اس لیے دُہرا رہا ہوں کیونکہ کوئی ہماری بات کا یقین ہی نہیں کرتا اور میں دھیلے اور پائی کی کرپشن کی طرح اس کا بھی بار بار دعویٰ کر سکتا ہوں لیکن میرے تو دعوے کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرتا؛ چنانچہ یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا ہے سبھی باری باری یہی بیان دیں کیونکہ جھوٹ بھی باربار بولنے سے سچ لگنے لگتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اسد عباس خاں کی شاعری:
ابتدا سے کسی انتہا کی طرف اور خدا کی طرف
روز و شب چل رہا ہوں فنا کی طرف اور خدا کی طرف
حجرۂ جان میں معتکف ہو چکا، منکشف ہو چکا
لوٹ جانا ہے میں نے دعا کی طرف اور خدا کی طرف
ان درختوں کی میرے خدا خیر ہو، اور آئے ہوا خیر ہو
یہ دعا میں نے بھیجی ہوا کی طرف اور خدا کی طرف
ایک ہی نور ہے اب کہاں جائوں گا سو کہاں جائوں گا
میں نجف کی طرف‘ کربلا کی طرف اور خدا کی طرف
از ازل تا ابد میں ہی میں ہوں یہاں اور کوئی کہاں
اک سفر ہے مرا ماسوا کی طرف اور خدا کی طرف
میں نے پایا یہیں سے سراغِ سخن اور چراغِ سخن
میں گیا ہوں یہیں سے عطا کی طرف اور خدا کی طرف
٭......٭......٭
اک تصوف بھرے آدمی سے کھلا، روشنی سے کھلا
یہ مقامِ فنا خواجگی سے کھلا، روشنی سے کھلا
باب ِ حرف و دعا، رنگِ صوت و صدا اور پھر تخلیہ
جس سے کھلنا تھا مجھ پر اُسی سے کھلا، روشنی سے کھلا
حیرت ِدو جہاں سے بڑا ہے یہ دل، قریۂ آب و گل
مجھ پہ یہ راز بھی زندگی سے کھلا، روشنی سے کھلا
اپنے باطن میں مَیں نورہوتا ہوا، طور ہوتا ہوا
عشق آباد کی شعلگی سے کھلا، روشنی سے کھلا
خود سے میں آج تک تو ملا ہی نہیں آشنا ہی نہیں
میرے اندر کی اس خامشی سے کھلا، روشنی سے کھلا
یاد کرنے پہ بھی یاد آتا نہیں، بھول پاتا نہیں
جانے کیا تھا جو اس دن کسی سے کھلا، روشنی سے کھلا
آج کا مطلع
ہماری نیند کا دھارا ہی اور ہونا تھا
یہ خواب سارے کا سارا ہی اور ہونا تھا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں