حکومت آئی ایم ایف کے سامنے گونگی
عوامی مسائل پر اندھی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت آئی ایم ایف کے سامنے گونگی، عوامی مسائل پر اندھی ہے‘‘ اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت عوامی مسائل پر صرف بات کر سکتی ہے اور آئی ایم ایف کے معاملات کو صرف دیکھ پرکھ سکتی ہے اور اس طرح اپنی محرومیوں کی تلافی میں مصروف ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ دونوں سے نمٹ رہی ہے، اس طرح نہ اسے اپنے گونگا ہونے کا نقصان ہے نہ اندھا ہونے کا، اور یہی چالاکیاں اسے اب تک گرنے سے بچائے ہوئے ہیں؛ چنانچہ اپوزیشن پارٹیوں کو اسے رخصت کرنے کے لیے کوئی اور ہی طریقہ آزمانا پڑے گا جبکہ ہم تو اس کے خلاف صرف بد دعائیں ہی کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
مریم نواز وزیراعظم کیلئے اہل نہیں‘ ہمارے
امیدوار شہبازشریف ہوں گے: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''مریم نواز وزراتِ عظمیٰ کیلئے اہل نہیں، ہمارے امیدوار شہباشریف ہوں گے‘‘ کیونکہ نہایت مبہم ہی سہی‘ اشارہ بہرحال ہو چکا ہے جس کی وضاحت کا انتظار جاری ہے۔ البتہ اگر اس دوران شہبازشریف اپنے خلاف جاری مقدمات کی نذر ہوجاتے ہیں تو ہماری اگلی چوائس حمزہ شہباز ہوں گے اور اگر وہ بھی ان کے ساتھ ہی چلے گئے‘ کیونکہ مقدمات میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں تو اس کے بعد یہ خاکسار ہی بچتا ہے جبکہ مجھے وزارتِ عظمیٰ چلانے کا تجربہ بھی ہے اور تجربے کا ویسے بھی کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے قانون
سازی کرنا پڑے گی: شبلی فراز
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے قانون سازی کرنا پڑے گی‘‘ کیونکہ گھڑ بازاری ملک کیلئے نقصان دہ ہے جبکہ ہمارے ہاں گھوڑوں کی تعداد پہلے ہی کم ہے حتیٰ کہ ملک عزیز میں تو گدھے بھی تشویشناک حد تک کم ہو گئے ہیں اور صرف خر دماغ کافی ہیں۔ البتہ خربوزے عام ہیں جن کا خر کے ساتھ براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ بھی دن تھے جب ہم دشت کے ساتھ ساتھ سمندروں میں بھی گھوڑے دوڑا دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پوری نیند حاصل کرنے کیلئے لوگ گھوڑے بیچ کے سو جایا کرتے تھے جبکہ گھوڑے اور گدھے ایک ہی رسے سے باندھے بھی جاتے تھے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
سب رنگ کہانیاں
سمندر پار سے شاہکار افسانوں کے تراجم
یہ مشہور زمانہ ڈائجسٹ سب رنگ میں شکیل عادل زادہ کی ادارت میں چھپنے والے غیر ملکی افسانوں کے تراجم کا مجموعہ ہے جسے بجا طور پر شکیل عادل زادہ کے نگار خانہ کا نام دیا جاتا ہے، اس کی تالیف وتشکیل حسن رضا گوندل نے کی ہے اور یہ ان کہانیوں کا چوتھا انتخاب ہے۔ انتساب،آشفتگانِ سب رنگ کے نام ہے ۔پسِ سر ورق تحسینی رائے دینے والوں میں نور الہدیٰ شاہ اور اصغر ندیم سید ہیں جبکہ اندرونِ سر ورق رائے انور خواجہ کی ہے۔ اصغر ندیم سید لکھتے ہیں کہ ''شکیل عادل زادہ نے جب سب رنگ ڈائجسٹ کی ابتدا کی تو اس زمانے کے بڑے سے بڑے ادبی پرچوں نے نہ تو اسے اپنا حریف تصور کیا نہ ہی اسے اہمیت دی‘ پھر سب نے دیکھا کہ سب رنگ ڈائجسٹ نے دنیا کی تاریخ میں ادبی پرچے کی حیثیت سے حیرت انگیز طور پر اپنی اشاعت کا نیا ریکارڈ قائم کیا اور لائبریریوں میں اُونگھتی ہوئی کہانیوں کو ہر خاص و عام کی زندگی میں شامل کر دیا۔ مزید بڑا کام حسن رضا گوندل نے کیا کہ اس عظیم سرمائے کو مستقل حیثیت میں جمالیاتی ذوق کے ساتھ محفوظ کر لیا ہے...‘‘۔شاندار گیٹ اَپ میں چھپنے والے اس مجموعے میں 52کہانیوں کے تراجم شامل ہیں۔
اور‘ اب اوکاڑہ سے علی صابر رضوی کی شاعری:
پھول کی بات کو مہکار سمجھ لیتا تھا
میں ترے قول کو اقرار سمجھ لیتا تھا
وہ تو سائے کو بڑھاتا تھا مرے آنگن تک
میں ہی دیوار کو دیوار سمجھ لیتا تھا
اتنا نادان تھا میں پہلے پہل چاہت میں
اس کے انکار کو انکار سمجھ لیتا تھا
ہائے وہ لوگ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے
جن کو ہر شخص خطا کار سمجھ لیتا تھا
وہ مذاقاً مجھے کہتا تھا سمجھدار ہے تُو
اور میں خود کو سمجھدار سمجھ لیتا تھا
شیرہ و شہد کی پہچان نہیں تھی مجھ کو
میٹھے بولوں کو بھی میں پیار سمجھ لیتا تھا
٭......٭......٭
جب بھی سوچا اسے محبت سے
نبض چلنے لگی سہولت سے
اس کا باغیچہ دیکھنے کے لیے
لوگ آئے ہوئے ہیں جنت سے
ان کو عبرت بنایا جاتا ہے
جو نہیں سیکھتے نصیحت سے
آج کا مطلع
رخِ زیبا اِدھر نہیں کرتا
چاہتا ہے، مگر نہیں کرتا