"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل

ایک رپورٹر کسی کام سے پاگل خانے گیا۔ ابھی وہ داخل ہوا ہی تھا کہ اس نے دیکھا کہ بہت سے پاگل 'پھٹ پھٹ پھٹاہ پھٹاہ۔ پھٹ پھٹ پھٹاہ پھٹاہ‘ کرتے اور موٹرسائیکل چلانے کا ایکشن بناتے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ ایک آدمی ایک طرف کھڑا تھا جس سے اس نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ چھٹی کا وقت ہے اور یہ موج مستی کر رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد وہ رپورٹر واپس آیا تو وہ آدمی وہیں کھڑا تھا‘ جس نے اس نے پوچھا کہ کیا آپ پیدل ہیں؟ اس کا جواب اس نے اثبات میں دیا تو وہ بولا: اتنی دھوپ اور گرمی میں آپ پیدل جائیں گے؟ اس پر وہ رپورٹر بولا: کوئی بات نہیں‘ میرا دفتر قریب ہی ہے۔ جس پر وہ شخص بولا:نہیں‘ نہیں! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آیئے! میرے پیچھے بیٹھیں ۔ پھٹ پھٹ پھٹاہ پھٹاہ، پھٹ پھٹ پھٹاہ پھٹاہ...
٭......٭......٭
ایک صاحب اپنی گاڑی میں کہیں جا رہے تھے کہ عین پاگل خانے کے سامنے ان کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ وہ نیچے اترے‘ ٹائر کھولا اور نٹ بولٹ ایک طرف رکھے۔ سٹپنی نکال کر لگائی تو دیکھا کہ نٹ بولٹ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھے۔ قریب ہی کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ شاید ان میں سے کسی نے اٹھا لیے تھے۔ وہ صاحب پریشان ہوئے اور سرپکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب میں کیا کروں۔ اتنے میں ایک پاگل‘ جو پاگل خانے کی دیوار پر بیٹھا تھا‘بولا: ''دوسرے ٹائروں میں سے ایک ایک نٹ نکال کر اس میں لگا لو اور آرام آرام سے ورکشاپ لے جائو‘‘۔
ان صاحب نے حیران ہو کر اوپر دیکھا اور بولے: ''کیا تم پاگل ہو!‘‘تو وہ بولا: ''میں پاگل ہوں، بیوقوف نہیں‘‘۔
٭......٭......٭
پاگل خانے میں جب ایک پاگل کے قیام کو کافی عرصہ ہو گیا تو وہاں کی میڈیکل ٹیم نے اس کے معائنے کی غرض سے اسے بلایا اور پوچھا: ''یہاں سے جا کر تم کیا کرو گے؟‘‘ ۔ ''میں باہر نکلنے سے پہلے اس عمارت کی کھڑکیوں کے سارے شیشے توڑ دوں گا‘‘۔ اس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ چھ مہینے تک اس کا مزید انتظار کرنا چاہیے؛ چنانچہ جب اسے دوسری بار بلا کر وہی سوال کیا گیا تو وہ بولا ''سب سے پہلے میں اپنے بھائیوں سے اپنی جائیداد کے حصے کا حساب کتاب لوں گا‘‘۔ ٹیم نے اطمینان کا سانس لیا اور پوچھا: اس کے بعد تم کیا کرو گے؟ ''اس کے بعد میں اپنے لئے تین چار سوٹ سلوائوں گا اور ایک نیکر خریدوں گا‘‘۔ ''ایک نیکر کیوں؟‘‘ انہوں نے پوچھا، تو وہ بولا ''نیکر میں سے الاسٹک نکالوں گا، جس کی غلیل بنائوں گا اور پتھرمار کر ساری کھڑکیوں کے شیشے توڑ دوں گا‘‘۔
٭......٭......٭
انتظامیہ کا ایک افسر پاگل خانے کے دورے پر گیا جہاں اس نے دیکھا کہ ایک کمرے میں ایک پاگل زور زور سے رو رہا اور آہ و بکا کر رہا ہے۔ افسر نے اس کی وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ یہ ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ اس کی شادی نہ ہو سکی اور یہ پاگل ہو گیا۔ افسر تھوڑا آگے گیا تو ایک پاگل نہ صرف دھاڑیں مار کر رو رہا تھا بلکہ دیوار سے سر بھی ٹکرا رہا تھا۔ افسر نے اُس کے بارے پوچھا تو بتایا گیا کہ اُس لڑکی کے شادی اس کے ساتھ ہو گئی تھی۔
٭......٭......٭
برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل ایک بار لندن کے پاگل خانے جا پہنچے تاکہ دیکھ سکیں کہ وہاں انتظام کیسا ہے اور پاگلوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کی خواہش پر کچھ پاگلوں کے ساتھ ان کی ملاقات بھی کرائی گئی۔ اس دوران چرچل نے ایک پاگل سے پوچھا: '' کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ وہ بولا:پہلے آپ بتایئے کہ آپ کون ہیں اور آپ کا نام کیا ہے؟ اس پر چرچل بولے: ''میں برطانیہ کا وزیراعظم ونسٹن چرچل ہوں‘‘۔ جس پر وہ پاگل بولا: ''جب میں یہاں آیا تھا تو میں بھی اپنا تعارف اسی طرح کرایا کرتا تھا‘‘۔
٭......٭......٭
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی یہ نظم:
ہر جانب دیواریں ہیں
ہم ہو آئے ہیں اس بستی سے
جس کی کوئی سرحد ہی نہیں ہے
اس دنیا میں گھوم آئے ہیں
جس میں قیام کی قید نہیں ہے
جس میں مقام کی قید نہیں ہے
مٹی کی نمناک مہک میں
خودرو جھاڑیوں
خار دار سڑکوں پہ اترتی
رات کی چپ میں
مٹھی میں
کچھ کِھلتے مَسلے پھول چھپائے
لوٹ آئے ہیں
دھندلی روشنیوں کی خنک خموشی میں
اک ادھ کھلے دریچے سے
رہ تکتی آنکھوں
ہلتے ہاتھوں
آنسو بکھراتے بادل
اور کانپتے ہونٹوں کی شاخوں پر
پنچھی کے گیتوں کی پکڑ سے
سانس چھڑا کر لوٹ آئے ہیں
خود کو رلا کر لوٹ آئے ہیں
کاہشِ وصل
اور ساعتِ ہجراں کی سختی سے
عیش فراغت
قریۂ شب سے
تاب طلب سے
خواب بچا کر لوٹ آئے ہیں
لوٹے ہیں تو ہر جانب دیواریں ہیں
جو خود ہی گرائی تھیں ہم نے
جو خود ہی اٹھائی ہیں ہم نے
آج کا مقطع
وفا ہے گھر سے بھی لازم مگر دلوں میں ظفرؔ
محبتوں کا تو خانہ ہی اور ہوتا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں