قوم اپنے قائد کا استقبال کرنے
کیلئے تیار ہے، رانا ثناء اللہ
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''قوم اپنے قائد کا استقبال کرنے کیلئے تیار ہے‘‘ نیز اکثر قیدی بھی ان کے انتظار میں بانہیں پھیلائے کھڑے ہیں کیونکہ وہ سب کے قائد ہیں جبکہ اب تو وزیر داخلہ نے انہیں ٹکٹ بھجوانے کا بھی وعدہ کر دیا ہے اور موجودہ صورتحال میں ان کیلئے یہ ریلیف بھی کچھ کم نہیں ہے حتیٰ کہ حکومت برطانیہ بھی ان کی جدائی کا زخم سہنے کے لیے تیار ہے جبکہ رانا شمیم سے بیانِ حلفی پر دستخط بھی انہوں نے اپنی موجودگی میں اسلئے لیے تھے کہ کہیں وہ اپنے بیان سے پھر ہی نہ جائیں کیونکہ قائد کی طرح سب کو مضبوط کردار کا مالک ہونا چاہئے۔ آپ اگلے روز وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اُٹھا: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اُٹھا،کیونکہ یہ ہاتھ 20سال کیلئے ہوتا ہے اور یہ ابھی مزید 15 سال تک ہمارے سر پر رہے گا اور جب یہ کسی کے سر پر سے اٹھتا ہے تو وہ بھی 20ہی سال کیلئے اٹھتا ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو خاطر جمع رکھنی چاہئے؛ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہاتھ ہمارے سر پر ہی رہے اور ان کے سر پر بھی رکھ دیا جائے کیونکہ یہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور مرضی میں کسی وقت بھی تبدیلی ہو سکتی ہے ؛ اگرچہ تبدیلی کا نعرہ ہم نے لگایا ہے لیکن یہ تبدیلی کسی اور طرف سے بھی آ سکتی ہے اور ہوا کا رخ کسی وقت بھی تبدیل ہو سکتا ہے جس پر کسی کا بھی اختیار نہیں ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
خود حکمرانوں کے پاس جائیں گے: مصطفی کمال
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ''لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، خود حکمرانوں کے پاس جائیں گے‘‘ گپ شپ کریں گے اور چائے پئیں گے، اگرچہ چائے کے ساتھ ایک آدھ بسکٹ کے علاوہ وہاں کچھ بھی دستیاب نہیں ہوتا اور ہم نے ایسی حکومت کبھی نہیں دیکھی، حالانکہ اس نے قرضے لے لے کر ملکی خزانہ کافی حد تک بھر دیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ دل کی سخی نہیں اور جہاں تک بھوتوں کو لاتیں مارنے کا معاملہ ہے تو ان پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہو گا، کیونکہ یہ تو غیرمرئی اور نظر نہ آنے والی مخلوق ہیں اور شکر ہے کہ یہ بھوت ہمارے سر پر سوار نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اپنی لاتوں کو اسی طرح واپس لانا پڑے گا جس طرح لے جائیں گے۔ آپ اگلے روز بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام کی خدمت پی ٹی آئی کی
سیاست کا محور ہے: فیاض چوہان
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ '' عوام کی خدمت پی ٹی آئی کی سیاست کا محور ہے‘‘ اور جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست عوام کے ارد گرد گھومتی ہے اور جس کی وجہ سے اسے کافی چکر بھی آنے لگ گئے ہیں اور وہ خود اس قدر چکرا چکی ہے کہ درمیان میں آرام کرنے کیلئے اسے طویل وقفے بھی لینا پڑتے ہیں جس سے عوام کی خدمت کافی عرصے کیلئے رکی رہتی ہے اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس لیے اب ہم چاہتے ہیں کہ اب عوام کو چاہیے کہ وہ پی ٹی آئی کے گرد چکر لگائیں تاکہ انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو سکے اگرچہ وہ مہنگائی کے ہاتھوں انہیں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز اپنے حلقے میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
اک گلی شہر میں تھی
یہ معروف شاعر اسدؔ اعوان کا مجموعۂ غزلیات ہے۔ انتساب ہیوسٹن‘ امریکا میں مقیم شاعرِ جمال الطاف بخاری کے نام ہے۔ پس سرورق شاعر کا یہ شعر تصویر کے ساتھ درج ہے:
اس محبت نے ہمیں جوڑ دیا آپس میں
ورنہ ہم دونوں کا اک جیسا عقیدہ تو نہ تھا
آغاز میں انہوں نے اپنا یہ مقطع درج کیا ہے:
ہم بھی غالب کی طرح کوچۂ جاناں سے اسدؔ
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے
''اپنی بات‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے، اس مجموعے میں کل 61غزلیں شامل ہیں‘ ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔
اور‘ اب آخر میں رستم نامیؔ کی غزل
غم برا ہے تو خوشی بکواس ہے
اس کا مطلب زندگی بکواس ہے
جس سے ہوتی ہے نہیں ملتا ہے وہ
یہ محبت بھی نری بکواس ہے
یار یہ دنیا بڑی ہے بے وفا
یار یہ دنیا بڑی بکواس ہے
صرف تیرا غم نہیں اے جانِ من
اس جہاں میں اور بھی بکواس ہے
جانے والا لوٹ کر آتا نہیں
اس لیے نوحہ گری بکواس ہے
ان دنوں ہر ایرا غیرا ہے وہاں
ان دنوں اس کی گلی بکواس ہے
میں نے رکھی پھر بھی جاری گفتگو
وہ بہت کہتی رہی بکواس ہے
چاپلوسی کے سوا کچھ بھی نہیں
آج کل کی افسری بکواس ہے
ہم نے سیکھا ہی نہیں اس سے سبق
آج تک جتنی ہوئی بکواس ہے
آج کا مطلع
اک دن ادھر سوارِ سمندِ سفر تو آئے
خود بڑھ کے روک لیں گے کہیں وہ نظر تو آئے