سعودی عرب سے تعاون بڑھانے
کے لیے پُرعزم ہیں:شاہ محمود قریشی
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''سعودی عرب سے تعاون بڑھانے کیلئے پُرعزم ہیں‘‘ جبکہ دراصل یہ سعودی عرب ہی کا تعاون ہے جسے بڑھانے کیلئے ہم پرعزم ہیں اور کافی عرصے سے چلے آ رہے ہیں اورآئندہ بھی رہیں گے کیونکہ ہماری صورتحال مستقل طور پر ہی ایسی رہے گی کہ دستِ سوال درازکرتے رہیں بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور وہ خود ہی مہربانی کر دیتا ہے، کبھی اُدھار تیل کی شکل میں اور کبھی ہمارے خزانے کو تقویت دینے کی خاطر وہ اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتا ہے اور اس وجہ سے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ ہم اپنے پاؤں کو زیادہ سے زیادہ آرام بہم پہنچانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ آپ اگلے روز سعودی سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت مارچ سے قبل ہی ختم
ہو جائے گی: مولانا عطا الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت مارچ سے قبل ہی ختم ہو جائے گی‘‘ جبکہ احتیاطاً ہمارے تمام رہنما حکومت کے خاتمے کی الگ الگ تاریخیں دیں گے تاکہ کسی کی پیش گوئی تو پوری ہو سکے جبکہ اس کے بعد ہمارے کارکنوں کی باری آئے گی تاریخیں دینے کی، اور کسی نہ کسی کا تیر تو نشانے پر بیٹھے گا تاکہ ہم کامیابی کا دعویٰ کر سکیں؛ تاہم اگراس بار یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی توحکومت کی اگلی مدت کیلئے کام آئے گی کیونکہ حکومت اور تو کسی طرح سے جاتی نظر نہیں آ رہی لیکن آخر یہ کتنی پیش گوئیوں کا بوجھ برداشت کر سکے گی۔ آپ اگلے روز سرگودھا میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اتحادی عمران خان کے ساتھ
مضبوطی سے کھڑے ہیں: علی محمد خان
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''اتحادی عمران خان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں‘‘ اور اتنی مضبوطی سے کھڑے ہیں کہ اس جکڑ بند کی وجہ سے نہ تو اتحادی خود کچھ کرنے کے قابل رہ گئے ہیں نہ سربراہِ حکومت کو کچھ کرنے دیتے ہیں حالانکہ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ اس مضبوطی کو ذرا ڈھیل دیں تاکہ کوئی مفید کام کر سکیں کیونکہ سارا کام تو ابھی ویسے کا ویسے پڑا ہے اور حکومت کی میعاد میں اب صرف ایک ڈیڑھ سال ہی باقی بچا ہے اور اگر یہ سال بھی ان معززین کی نذر ہو گیا تو اور کچھ ہو نہ ہو، احتساب کا عمل ضرور پیچھے رہ جائے گا جسے آگے بڑھانے کی وہ پوری کوشش کر رہے تھے کہ اتحادیوں کے غلبے تلے آ کر وہ بالکل ہی بے عمل ہو کر رہ گئے ہیں۔ آپ ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
وزیراعظم بتائیں نواز شریف کی
واپسی کا راستا کون بنا رہا ہے: جاوید لطیف
مسلم لیگ نواز کے رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم بتائیں نواز شریف کی واپسی کا راستا کون بنا رہا ہے‘‘ تاکہ ہم بھی اس سلسلے میں اس کا ہاتھ بٹا سکیں کیونکہ ہم تو ان کی واپسی کے معاملے میں بالکل مایوس ہو چکے تھے اور اوپر سے کوئی نہ کوئی وزیر‘ مشیر برابر یہ کہتا چلا جاتا کہ فلاں جیل نواز شریف کا انتظار کر رہی ہے، علاوہ ازیں اُن کی اپیل کے بھی برطانیہ کی عدالت سے منظور ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، اور مزید کہ بیان حلفی کا کیس بھی اُلٹا ان کے گلے پڑتا دکھائی دیتا ہے اس لیے کوئی خدا کا بندہ اگر ان کی واپسی کی راہ ہموار کر رہا ہے تو اس کے منہ میں گھی شکر۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
کتابیں اور یادیں
یہ غلام حسین ساجد کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں ہم عصر شعرا و ادبا کے فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انتساب محمد سلیم الرحمن کے نام ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اورا ن کی تصانیف کے ٹائٹل چھاپے گئے ہیں۔ پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ ان مضامین کے ذریعے مختلف ادیبوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور ان کی تحریروں سے بھی شناسائی حاصل ہوتی ہے جن میں سے اکثر کے نام یہ ہیں: عبدالرشید، سعادت سعید، نجیب احمد، نسرین انجم بھٹی، صبا اکرام، صابر ظفر، ابراراحمد، جمیل الرحمن، ضیاالحسن، حمیدہ شاہین، زاہد مسعود، منیرنیازی، عارفہ شہزاد، انیس ناگی، خان فضل الرحمن خاں، مستنصر حسین تارڑ، پروین شاکر اور اس کے علاوہ مصنف نے اپنے تخلیقی سفر کی بھی روداد بیان کی ہے۔ کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ہے اور ضخامت 271 صفحات۔
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی نظم:
لبریز
خدا مجھ کو دے شکتی
جیسے وہ شفاف صبحوں کو دیتا ہے
نکلیں وہ پریوں کے ہمراہ پر جھاڑتی
جیسے مخمل بھری دھوپ کو دیتا ہے
پھیل جائے پہاڑوں کی چوٹی سے نیچے
پرندوں بھری جھیل تک!
جیسے سورج کو دیتا ہے، ہر روز
خالی کرے ا پنی چھاگل شعاعوں سے!
جیسے سیہ ابر کو شکتی دیتا ہے
برسے زمیں پر
زمیں‘ نمو کو بڑھائے زمین!
جیسے روشن ستاروں کو دیتا ہے
روشن کریں اپنا خالی خلا...
لوگوں کو اپنے حصے کا آسماں!
جیسے دیتا ہے گہرے کنویں کو
وہ پاتال سے تازہ پانی اُٹھائے
اُٹھائے وجود اپنا پانی
دکھائے زمانوں کو نورستہ چہرہ
ملا دے وہ مٹی میں خود کو
وہ مٹی میں خود کو ملا دے
خدا مجھ کو دے شکتی
جیسے وہ لذت کو دیتا ہے
پھیلے پھلوں میں
درختوں کے سائے کو دیتا ہے
راحت بکھیرے،
جیسے سیہ رات کو شکتی ملتی ہے
آغوش پھیلائے، جھولی میں بھرے زمانے
خدا مجھ کو دے شکتی
لبریزہو جاؤں
جیسے کنواں رات کو خالی ہوتا ہے
لیکن دمِ صبح
پانی سے لبریز ہو جاتا ہے!!!
آج کا مقطع
ظفرؔ روکا ہوا تھا زندگی نے
مرا ہوں اور جاری ہو گیا ہوں