"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، افضال نوید اور قمر رضا شہزاد

نوازشریف واپس آئیں‘ ملک کو مسائل
سے نکالنا ہوگا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نوازشریف واپس آئیں‘ ملک کو مسائل سے نکالنا ہوگا‘‘ اور سب سے پہلے تو ملک کو ان مسائل سے نکالنا ہوگا جو پی ڈی ایم کے پیدا کردہ ہیں بلکہ اس سے بھی پہلے ملک کو ان مسائل سے نکالنا ہوگا جووہ خود پیدا کرکے گئے تھے اور وہ بھی جو وہ آکر پیدا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اصولی بات ہے کہ جو مسائل پیدا کرتا ہے‘ ان سے نکالنے کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے علاوہ ازیں جو مسائل ان کے نہ آنے سے پیدا ہوں گے‘ خدشہ ہے کہ وہ بھی کہیں ہمارے گلے نہ پڑ جائیں جبکہ ہمارا گلا تو پہلے ہی مسائل کے ہاروں سے پٹا پڑا ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
بلدیاتی الیکشن‘ ٹکٹ میرٹ پر دیں گے: پرویز خٹک
وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں ٹکٹ میرٹ پر دیے جائیں گے‘‘ جبکہ ہم نے تو پہلے بھی ٹکٹ میرٹ پر ہی دیے تھے کیونکہ اگر قریبی رشتے داروں کو نہ دیتے تو ہمیں گھر سے بھی ووٹ نہ ملتے؛ تاہم اب دور کے رشتے داروں ہی کو ٹکٹ دیے جائیں گے جو پہلے ہی ہم سے خفا اور ناراض ہیں جبکہ دور کے رشتے داروں کی تعداد ویسے بھی نزدیکی رشتے داروں سے زیادہ ہے۔ نیز جمہوریت میں اکثریت ہی کو ترجیح دی جاتی ہے اور فیصلہ کن کردار بھی وہی ادا کرتی ہے اور ہم جمہوری اصولوں اور پابندیوں سے باہر جا ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا امید ہے کہ اس بار نتائج پہلے سے مختلف ہوں گے۔ آپ اگلے روز نوشہرہ کے بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہونے والوں کے امیدواروں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت نے وسائل کم اور مسائل
زیادہ کر دیے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ '' حکومت نے وسائل کم اور مسائل زیادہ کر دیے ہیں‘‘ حالانکہ اصولی طور پر اسے تناسب کا خیال رکھنا چاہئے تھا اور مسائل بھی وسائل کی نسبت اور حساب سے پیدا کرنا چاہئیں تھے اور جو گڑ بڑ پیدا ہوئی ہے اسی عدم تناسب کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے؛ چنانچہ پہلے اسے دونوں کا اچھی طرح حساب لگانا چاہئے تھا اور ایک وسیلے کے مقابلے میں ایک ہی مسئلہ پیدا کرتی تاکہ مساوات کے اصول پر بھی عمل ہو جاتا اور حکومت موجودہ پریشانی سے بھی بچ جاتی جس کی وجہ سے ہم بھی پریشان ہیں کہ آخر حکومت تو ہماری اپنی ہی ہے جبکہ مخالفت اپنی جگہ پر ہے۔ آپ اگلے روز حاصل پور میں کنونشن اور ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
ایک چوہا کورونا فنڈ کے چالیس ارب کھا گیا: سعید غنی
وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ایک چوہا کورونا فنڈ کے چالیس ارب کھا گیا اور غالباً یہ وہی چوہا ہے جو ہمارے ہاں پڑی ہوئی ہزاروں بوریاں گندم کھا گیا تھا جس کی تلاش بڑے زوروں سے جاری ہے اور جس کیلئے ماہر بلیوں کا ایک جتھہ بھی مرتب کیا جا رہا ہے اور اسے ہم تلاش کرکے چھوڑیں گے؛ اگرچہ ہمیں اس کی بابت کچھ اشارے ملے ہیں لیکن بعض مجبوریوں کی بنا پر ہم اس کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے نہ ہی اس پر بلی چھوڑی جا سکتی ہے کیونکہ بلی بھی اپنوں اور پرایوں میں پورا امتیاز روا رکھتی ہے جبکہ یہ بلی تو نو سو چوہے کھا کر حج بھی کر چکی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت لوگوں کو ماموں بنا رہی ہے: مشی خان
اداکارہ مشی خان نے کہا ہے کہ ''حکومت لوگوں کو ماموں بنا رہی ہے‘‘ اور یہ سرا سر زیادتی بلکہ یکطرفہ کارروائی ہے کیونکہ انہیں چچا ، تایا بھی بنایا جا سکتا تھا کیونکہ اس غیر مساویانہ کارروائی سے رشتے داروں میں عدم تناسب پیدا ہوتا ہے جو معاشرے کیلئے کسی طور بھی مفید نہیں ہے جبکہ حکومت نے اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ ملک میں خواتین کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے اور خواتین کو کسی طور بھی ماموں نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے بہتر تھا کہ برابری کا درجہ دیتے ہوئے خواتین کو خالہ یا پھوپھی بنایا جاتا اور وہ اسے بخوشی قبول بھی کر لیتیں حتیٰ کہ بزرگ خواتین کو نانی اماں بھی بنایا جا سکتا تھا۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعرو شاعری بھی ہو جائے
کسی سحر کا کسی شام کا نہیں رہتا
جو تیرا ہو وہ کسی کام کا نہیں رہتا
ہوا کے ساتھ بھٹکتا ہے تیرے کوچے میں
کسی گھڑی بھی وہ آرام کا نہیں رہتا
جو پچھلی رات چھتوں پر گھٹا برستی ہے
وہ بے خودی میں در و بام کا نہیں رہتا
شبِ فراق تجھے ایک بار پھر کہہ دوں
یہاں پہ کوئی میرے نام کا نہیں رہتا
طلسمِ اسم کہ آغوشِ دل میں کھلتا ہے
سرِ زماں تو کسی نام کا نہیں رہتا
ٹھہر گیا ہے مرے دل پہ سانس لینے کو
وگرنہ ماہ کسی بام کا نہیں رہتا
میں صبح و شام اُسی کے خیال میں ہوں نویدؔ
مجھے خیال کسی کام کا نہیں رہتا
(افضال نوید)
پھولوں کی کوئی دکاں بنائوں
میں گوشۂ رفتگاں بنائوں
گرانے کو ہے یہ جہانِ خستہ
میں ایک نیا مکاں بنائوں
کوئی ہے فلک کے پار میرا
ہر روز میں سیڑھیاں بنائوں
دریا بھی نہیں ہے راستے میں
اور پھر بھی میں کشتیاں بنائوں
یہ عشق کی آگ ہے میں اس سے
لازم تو نہیں دھواں بنائوں
شاید میں ضمیر کا ہوں قیدی
کاغذ پہ بھی بیڑیاں بنائوں
(قمر رضا شہزاد)
آج کا مطلع
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں