"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ڈاکٹر ابرار احمد

جب تک وزیر ہوں انکم‘ سیلز ٹیکس دینا ہوگا: شوکت ترین
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''جب تک وزیر ہوں انکم، سیلز ٹیکس دینا ہوگا‘‘ اور جو لوگ ایسا کرنا نہیں چاہتے وہ مجھے عہدے سے ہٹانے کیلئے کارروائی کر سکتے ہیں یعنی اس کیلئے تحریک چلا سکتے اور لانگ مارچ وغیرہ کر سکتے ہیں تاہم یہ طریقے چونکہ وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے کامیاب نہیں ہو سکے اس لئے میرے خلاف بد دعائوں کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے اور بددعا چونکہ صرف کالی زبان والوں کی قبول ہوتی ہے اس لیے اس سے پہلے زبان کالی کروانا بھی ضروری ہے کیونکہ وزیراعظم کی طرح میں بھی مستقل مزاج آدمی ہوں اور آسانی سے جانے والا نہیں ہوں، خاطر جمع رکھیں۔ آپ اگلے روز نیشنل سیلز ٹیکس ریٹرنز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم ختم ہو چکی، حکومت کو چلتا کرنا چاہئے: کائرہ
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم ختم ہو چکی، حکومت کو چلتاکرنا چاہئے‘‘ کیونکہ حکومت پی ڈی ایم کی سبز قدمی کی وجہ سے قائم تھی اگرچہ اس میں کچھ ہماری نیک خواہشات بھی شامل تھیں کیونکہ حکومت کے جانے سے میں کوئی فائدہ حاصل ہونے نہیں جا رہا تھا اور اسی لئے ہم نے پی ڈی ایم کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیا تھا بلکہ خود پی ڈی ایم بھی زبانی کلامی ہی حکومت کے خلاف تھی کیونکہ وہ اپنے سارے حربے آزما چکی تھی اور اپنے الٹے سیدھے بیانات کے ذریعے محض ایک رسم ہی پوری کر رہی تھی کیونکہ اگر مہنگائی نے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑا تھا تو ہم لوگ کیا کر سکتے تھے جنہوں نے اپنی ساری امیدیں مہنگائی ہی سے لگا رکھی تھیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
میرا جہاز کسی طرف بھی جا سکتا ہے: جہانگیر ترین
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ ''میرا جہاز کسی طرف بھی جا سکتا ہے‘‘ کیونکہ یہ پائلٹ کے بغیر چل رہا ہے اور اسے میں نے اس کی اپنی ہی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ جب اور جس سمت چاہے اپنی مرضی سے مڑ جائے۔ البتہ اگر حکومت یا اپوزیشن کا کوئی پائلٹ اس کے اندر چھپا بیٹھا ہو تو وہ اسے اپنی طرف بھی موڑ سکتا ہے جس پر میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا اور میں خود اس کا اندازہ لگانے میں مصروف ہوں کہ یہ آخر کس طرف مڑتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جب تک چاہے اسی طرح بے سمت ہی اڑتا رہے جب تک کہ وزیراعظم کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر لیتے۔ آپ اگلے روز (ن) لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں میڈیا کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
کوئی چور اور جھوٹا وزیراعظم نہیں ہو سکتا: شہبازشریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ '' کوئی چور اور جھوٹا وزیراعظم نہیں ہو سکتا‘‘ کیونکہ صورتحال تبدیل ہو چکی ہے اور یہ امکان قصۂ پارینہ ہو کر ہی رہ گیا ہے لہٰذا کوئی چور اور جھوٹا شخص وزیراعظم بننے کی تمنا نہ کرے یعنی:
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
جبکہ ماضی میں رواج کچھ اور تھا اور اس کی متعدد مثالیں بھی موجود ہیں اور اب یہ بات ایک سہانا سپنا ہی بن کر رہ گئی ہے کیونکہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
مہنگائی کا جن بہت جلد قابو میں آ جائے گا: علی محمد خان
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کا جن بہت جلد قابو میں آ جائے گا‘‘ کیونکہ حکومت یہ جن قابو کرنے کیلئے ماہر عامل حضرات کی خدمات حاصل کر رہی ہے اور جس کیلئے اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کرائے جا رہے ہیں کہ مشاق عامل حضرات جہاں کہیں بھی ہوں حکومت سے رابطہ کریں کہ جن نکالنے پر انہیں بھاری معاوضہ دیا جائے گا جبکہ اس مقصد کیلئے متعدد بھوتوں اور چڑیلوں کو بھی جمع کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنے طور پر اس جن کو قائل کرنے کی کوشش کریں اول تو یہ کام خود ہی ہو جائے گا کیونکہ جن حضرات اس مہنگائی کے ہاتھوں خود بھی پریشان ہیں اور بھوکوں مر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم
ہواہر اک سمت بہہ رہی ہے
ہواہر اک سمت بہہ رہی ہے
جلو میں کوچے مکان لے کر
سفر کے بے انت پانیوں کی تھکان لے کر
جو آنکھ کے عجز سے پرے ہیں
انہی زمانوں کا گیان لے کر
ترے علاقے کی سرحدوں کے نشان لے کر
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
زمین چپ
آسمان وسعت میں کھو گیا ہے
فضا ستاروں کی فصل سے لہلہا رہی ہے
مکاں مکینوں کی آہٹوں سے دھڑک رہے ہیں
جھکے جھکے نم زدہ دریچوں میں
آنکھ کوئی رکی ہوئی ہے
فصیلِ شہر ِمراد پر
نا مراد آہٹ اٹک گئی ہے
یہ خاک تیری مری صدا کے دیار میں
پھر بھٹک گئی ہے
دیارِ شام و سحر کے اندر
نگارِ دشت و شجر کے اندر
سوادِ جان و نظر کے اندر
خموشی بحر و بر کے اندر
ردائے صبح خبر کے اندر
اذیت روز و شب میں
ہونے کی ذلتوں میں نڈھال صبحوں کی
اوس میں بھیگتی ٹھٹھرتی
خموشیوں کے بھنور کے اندر
دلوں سے باہر
دلوں کے اندر
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتیاں، ظفر
آنکھ بکھر بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں