حکومت سانحہ مری پر مستعفی ہو‘ ورنہ قوم
گھسیٹ کر باہر نکالے گی: شہبازشریف
قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف‘ مسلم لیگ نواز کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''سانحۂ مری پرحکومت مستعفی ہو، ورنہ قوم گھسیٹ کر باہر نکالے گی‘‘ اگرچہ استعفیٰ دینا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ سانحۂ ماڈل ٹائون میں بھی تقریباً اتنے ہی آدمی مرے تھے لیکن میں نے استعفیٰ نہیں دیا تھا اور نہ ہی قوم نے کسی کو گھسیٹ کر باہر نکالا تھا۔ اگرچہ اب برفانی طوفان کی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا مگر اُس وقت تو پولیس نے نشانے باندھ باندھ کر مردوں اور عورتوں کو مارا تھا اور جس کی انکوائری کے بعد کسی کو بھی مجرم قرار نہیں دیا گیا تھا اور جس کا آج تک فیصلہ بھی نہیں ہو سکا۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں سانحہ مری پر خطاب کر رہے تھے۔
تین مہینے اہم ہیں، کچھ ہونے والا ہے: منظور وسان
مشیرِ زراعت سندھ منظور حسین وسان نے کہا ہے کہ ''تین مہینے اہم ہیں، کچھ ہونے والا ہے‘‘ اور اگر وفاقی حکومت تبدیلی نہ ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کچھ بھی نہیں ہوا جبکہ میاں نوازشریف نے اِن ہائوس تبدیلی پر اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا ہے کیونکہ وہ خود بھی اس تبدیلی کے بعد ہی واپس آ سکتے ہیں کیونکہ جب تک حکومت تبدیل نہیں ہوتی، ان کا علاج بھی مکمل نہیں ہوتا لیکن ان کی چالاکی کو ہم بھی سمجھتے ہیں اور اِن ہائوس تبدیلی پر ہمارے تحفظات کی وجہ بھی یہی ہے کیونکہ اس سے صرف نون لیگ والوں کا مطلب سیدھا ہو گا اور ہمارا معاملہ سیدھا ہونے کے بجائے مزید ٹیڑھا ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں زائد اثاثوں کے کیس میں پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر گفتگو کر رہے تھے۔
سانحۂ مری پر بزدار ذمہ دار ہوئے
تو وزیراعظم نوٹس لیں گے: علی محمد خان
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''سانحۂ مری پر بزدار ذمہ دار ہوئے تو وزیراعظم نوٹس لیں گے‘‘ اور صرف نوٹس لیں گے‘ کسی کو کوئی سزا نہیں دیں گے کیونکہ اگر وہ سزا دے سکتے تو کب کا پنجاب حکومت کو فارغ کر چکے ہوتے جبکہ ان کی مصروفیات کو بھی وزیراعظم بے حد اہمیت دیتے ہیں، سانحۂ مری کے وقت وہ پارٹی کی تنظیمی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جو اتنا ہی اہم کام تھا جبکہ سارا نقصان تو اس دوران ہو چکا تھا اور اجلاس چھوڑ دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ سکتا تھا جبکہ موجودہ اور بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق ایسا کوئی واقعہ پارٹی کے اندر بھی ہو سکتا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
صحت کارڈ کی تقسیم وزیراعظم کے
خواب کی تعبیر ہے: یاسمین راشد
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''صحت کارڈ کی تقسیم وزیراعظم کے خواب کی تعبیر ہے‘‘ جبکہ وزیراعظم کا ہر کام ان کے خواب کی تعبیر ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف خواب دیکھتے ہیں اور دوسرے کسی کام پر توجہ نہیں دے سکتے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام تسلی بخش طور پر کیا جا سکتا ہے چنانچہ وہ خواب بھی تسلی بخش طور پر دیکھتے ہیں اور ایسے خواب دیکھنے کیلئے ان کا سونا ضروری نہیں ہوتا اور وہ جاگنے میں بھی خواب ہی دیکھتے ہیں اور اس سے جو وقت بچتا ہے وہ ان کی تعبیر کا انتظار کرنے میں صرف کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کام بھی کیا جائے اسے تسلی بخش طریقے سے کیا جائے‘ بھلے اس کا نتیجہ کتنا ہی غیر تسلی بخش کیوں نہ ہو۔ آپ اگلے روز یو سی 48 کے اہلِ علاقہ میں صحت کارڈ تقسیم کر رہی تھیں۔
مری واقعہ میں جان بوجھ کر کسی
نے نقصان نہیں پہنچایا: راجہ بشارت
وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا ہے کہ ''مری واقعہ میں جان بوجھ کر کسی نے نقصان نہیں پہنچایا‘‘ اور اگر انتظامیہ کی غفلت اور نالائقی کی وجہ سے نقصان ہوا ہے تو اسے بھی جان بوجھ کر نقصان پہنچانا نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس پر کسی کا اختیار نہیں اور یہ ہمارے ہر شعبے میں نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے میں نے مری میں ہونے والے سانحے کو سانحہ نہیں بلکہ واقعہ کہا ہے؛ تاہم وزیراعلیٰ نے اس پر کمیشن مقرر کر دیا ہے جو اس کی انکوائری کرے گا جس کا لب لباب یہی ہوگا کہ اس واقعہ میں کسی نے جان بوجھ کر نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ ہم اگر فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو نقصان کیسے پہنچا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں کبڈی چیمپئن شپ کے افتتاح کے موقع پر گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں عامر سہیل کی شاعری:
یک رنگی ہے‘ بے خوابی ہے
یہ شہر بڑا تیزابی ہے
اُس باتیں کرتے چہرے پر
یہ آنسو غیر نصابی ہے
اُس پار ہے کیا جس پار ہو تم
یہ نیند اگر سیلابی ہے
سکھ تول کے دو‘ دکھ بول کے دو
اس شام کے بعد خرابی ہے
اک نظم ہیں کچے ہونٹ تیرے
اک نظم میری بیتابی ہے
تم جب جب آنکھ اٹھاتی ہو
لگتا ہے وار جوابی ہے
ہم ڈوب گئے ہیں‘ سنتی ہو؟
کیا شور ہے‘ کیا غرقابی ہے
نظم
اچانک آدمی ہو
کیا بھیانک آدمی ہو
دشت کی سانسیں نگلتے ہو
سُتی آنکھوں پہ چلتے ہو
خدا نے مسخرے پیدا کیے ہیں
مسخرے -اک ڈگڈگی جن کی محافظ ہے
خدا پھر بھی خدا ہے- وہ خدا
جو ظاہر و باطن پہ نافذ ہے
آج کا مقطع
اُسی زرد پھول کی بددعا ہے ظفرؔ یہ دل کی فسردگی
مرا منتظر رہا مدتوں جو پسِ نقاب کھلا ہوا