"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں، متن اور اوکاڑہ سے علی صابر رضوی

بس بہت ہو گیا، عوام اسلام آباد
کے لیے نکلیں گے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''بس بہت ہو چکی، عوام اسلام آباد کے لیے نکلیں گے‘‘ اور اس طرح انہیں جی بھر کے اسلام آباد دیکھنے کا موقع ملے گا کیونکہ ہمارے عوام کی اکثریت نے اسلام آباد کبھی نہیں دیکھا؛ اگرچہ کراچی بھی بے حد قابلِ دید شہر ہے اور اسے ہم مزید قابلِ دید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ بارشوں میں یہ خود ہی قابلِ دید ہو جاتا ہے بلکہ اصل قابلِ دید ہم لوگ ہیں جن کو دیکھنے سے نہ صرف روح تازہ ہوتی ہے بلکہ قسمت بھی کافی سنور جاتی ہے لیکن ہم احتیاطاً باہر کم ہی نکلتے ہیں کیونکہ جو کچھ عوام کے ساتھ ہو چکا ہے وہ اظہارِ محبت میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آپ اگلے روز بلاول ہاؤس میں مختلف وفود سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔
اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ کے نام
پر عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں: ہمایوں اختر
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہمایوں اختر نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں‘‘ حالانکہ عوام اتنے بھولے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو ہر بار برسراقتدار لے آتے ہیں جنہیں ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں یا جو معاملات سے عدم واقفیت اور اپنی سادگی کی بنا پر کچھ نہیں کر سکتے اور کام سیکھنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہتے ہیں حالانکہ کچھ سیکھنے کے لیے اُس بنیادی اہلیت کا ہونا ضروری ہے جو چیزوں کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے، اس لیے حکومت سمیت ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں
آپ اگلے روز لاہور کے حلقہ 131کے مرکزی دفتر میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت اور ملک اب اکٹھا نہیں چل سکتے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت اور ملک اب اکٹھا نہیں چل سکتے‘‘ اور انہیں چلنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ کورونا نے پھر زور پکڑ لیا ہے اور ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنا بیحد ضروری ہو گیا ہے جبکہ اکٹھے چلنا بذاتِ خود اس وائرس کو دعوت دینے کے مترادف ہے بلکہ دونوں کو دن میں بیس بار صابن مل مل کر ہاتھ دھونا چاہئیں کیونکہ یہ خاصے نازک مزاج واقع ہوئے ہیں اور وائرس کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتا ہے جبکہ خاکسار کا کام صرف خبردار کرنا تھا جو کر کے وہ ا پنے فرض سے سبکدوش ہو گیا ہے اور اس کے عوض کسی معاوضے کی بھی توقع نہیں رکھتا کیونکہ میرے لیے اتنی خدمت بھی کافی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک ناشتے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وزرا مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے لیے ڈیل
کی باتیں کر رہے ہیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وزرا مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے لیے ڈیل کی باتیں کر رہے ہیں‘‘ اور ڈیل کرنے کے بجائے صرف باتوں پر ہی ٹرخا رہے ہیں حالانکہ ہمیں باتوں سے نہیں بہلایا جا سکتا اور حکومت اگر ہمارے چار لوگوں کے لیے ڈیل کر لیتی تو ساری جماعت ہی ملک سے باہر چلی جاتی اور حکومت کا دردِ سر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا جو ہمارے قائد کے بیانیے سے پیدا ہوا حالانکہ مسئلہ صرف حکومت کو نہیں‘ ہمیں بھی ہوا اور ہم اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں بلکہ اس حوالے سے کوششیں بھی شروع کر دی ہیں ۔ آپ اگلے روز لاہور میں دنیا نیوز سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن میں مزاحمت کی سکت ہی نہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن میں مزاحمت کی سکت ہی نہیں‘‘ کیونکہ جو اس حکومت کاکچھ نہیں بگاڑ سکی اس کے بارے میں اور کیا رائے قائم کی جا سکتی ہے جبکہ گرتی ہوئی دیوار کے لیے ایک دھکا ہی کافی تھا۔ اس لیے اپوزیشن کو چاہیے کہ کچھ کھایا پیا کرے تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے، بلکہ اس نے جو پہلے کھایا پیا تھا‘ وہ تو کب کا ہضم بھی ہو چکا ہے جبکہ اس کی واپسی بھی ایک خواب ہی کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور یہی وہ ڈراؤنا خواب ہے اپوزیشن ہمیں جس کا طعنہ دیتی رہتی ہے جبکہ ہمیں شہباز شریف کے حوالے سے صرف سہانے خواب ہی آ رہے ہیں کیونکہ اگر ایک بھی مقدمہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا تو اس خواب کی تعبیر نکل آئے گی۔ آپ اگلے روز چکوال کے قصبہ لطیفال میں کور کمانڈر پشاور کے ماموں کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے علی صابر رضوی کی غزل:
پہاڑ کاٹتے دریاؤں کی روانی کو
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں میں نوجوانی کو
نشان مٹتے چلے جا رہے ہیں قبروں کے
میں لے کے بیٹھا ہوں اب تک تری نشانی کو
ارادہ باندھ رہا تھا میں تیرے گاؤں کا
اُمڈ کے آ گئے بادل بھی سائبانی کو
دُعا کے بعد بھی جب مجھ کو گھر نہیں ملتا
میں سوچ لیتا ہوں پھر تیری لامکانی کو
جہاں پہ شور نے لوگوں کے کان پھاڑے ہوں
وہاں پہ کون سنے پھول کی کہانی کو
میں دیوتاؤں کی بستی کا آخری گونگا
بیان کیسے کروں اُس کی خوش بیانی کو
بچھڑ کے کس طرح جینا محال ہوتا ہے
یہ بات مچھلیاں کیونکر بتائیں پانی کو
وہیں سے شعر کا شجرہ شروع ہوتا ہے
جہاں سے لفظ جنم دے نئے معانی کو
آج کا مطلع
ملے نہیں تھے کبھی اور جدائی ہو گئی ہے
جو قید ہی نہ تھے اُن کی رہائی ہو گئی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں