پی ڈی ایم بدنام اتحاد‘ حصہ
نہیں بنیں گے: آصف زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم بدنام اتحاد ہے‘ حصہ نہیں بنیں گے‘‘ جبکہ اسے ہماری سیاسی نیک نامی ہی سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہیے تھا اور اپنے نام و نمود کا خیال رکھنا چاہیے تھا، جیسا کہ ہم نے رکھا ہوا ہے اور جب سے ہم پی ڈی ایم سے نکلے ہیں اس نے بدنام ہونا شروع کر دیا اور اگر ہم اس میں رہتے تو ہم نے بھی بدنام ہونا شروع ہو جانا تھا؛ اگرچہ یہ اتحاد ہمارے شامل ہونے سے پہلے ہی ایسا تھا لیکن ہمیں اس کا پتا ہی بعد میں چلا اور ہم اس میں سے اپنی عزت بچا کر نکل آئے جو ہماری اصل کمائی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور سے مولانا فضل الرحمن کو پیغام ارسال کر رہے تھے۔
سانحۂ مری‘ افسروں کو فارغ کر کے
وعدہ پورا کر دیا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سانحۂ مری کے ذمہ دار افسروں کو فارغ کر کے وعدہ پورا کر دیا‘‘ اگرچہ صحیح معنوں میں فارغ کرنے کے بجائے انہیں صرف معطل ہی کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر سزا وغیرہ سے بچ سکیں کیونکہ کوئی بھی افسر ایسا نہیں ہوتا جس کے سیاسی بارسوخ لوگوں کے ساتھ خصوصی تعلقات نہ ہوں اور نہ ہی سیاستدان ان افسروں کے تعاون کے بغیر گزارہ کر سکتے ہیں، بہرحال میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اب یہ افسر جانیں اور ان کا کام کیونکہ اگر یہ لوگ انکوائری سے بچ نہ نکلے تو یہ ان کی اپنی نالائقی ہوگی، اور اگر افسر بھی نااہلی کا ثبوت دینے لگ جائیں تو یہ نہایت نامناسب بات ہوگی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت گرانے کے لیے تحریکِ عدم
اعتماد پر تیار ہیں: قمر زمان کائرہ
سابق وزیر اطلاعات اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد پر تیار ہیں‘‘ اور جب سے ہمیں یقین ہوا ہے کہ عدم اعتماد کے لیے ہمارے پاس اکثریت ہی نہیں‘ ہم نے فوراً اس کے لیے تیار ہونے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ پہلے ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ ہم کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے بلکہ پکی گولیوں یعنی بنٹوں کے بغیر ہم نے کبھی یہ کھیل کھیلا ہی نہیں اور جب ہم نے واضح طور پر اعلان کر رکھا ہے کہ ہم حکومت گرانے کے حق میں نہیں اور اسے اپنی مدت پوری کرنی چاہیے تو ہم سے یہ توقع ہی کیوں رکھی جاتی ہے جبکہ ہم ا پنا لانگ مارچ بھی اس لیے کر رہے ہیں کہ عوام کے نزدیک ہمارا حکومت مخالف ہونا ثابت ہو سکے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
سرکاری وسائل سے لوگوں کے ضمیر
خریدے جا رہے ہیں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سرکاری وسائل سے لوگوں کے ضمیر خریدے جا رہے ہیں‘‘ جبکہ ہم یہ کام اپنے پلّے سے کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے پاس ان کے ضمیر خریدنے کے لیے صرف نیک خواہشات ہیں اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ نیک خواہشات سے نہ تو ان کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اور مسئلہ حل ہوتا ہے بلکہ شومئی قسمت سے وہ ہماری نیک خواہشات پر اعتبار بھی نہیں کرتے کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہماری خواہشات میں اگر کوئی دم خم ہوتا تو ان کا اظہار ہم خود اپنے لیے کیوں نہیں کرتے۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں پشاور سے ڈاکٹر محمد اسحاق وردگ کی یہ غزل:
کچھ کہوں یا کہ میں خاموش رہوں‘ لکھتا ہوں
اب تو ہنستے ہوئے بھی سوزِ دروں لکھتا ہوں
اس سے بڑھ کر کوئی سمجھوتا نہیں ہے ممکن
خوف لکھتا ہوں تو معنی میں سکوں لکھتا ہوں
گمشدہ عشق وضاحت کے لیے آتا ہے
دل کی دیوار پہ اشعارِ جنوں لکھتا ہوں
ہجو لکھتا ہوں خرابے کی خرابی پہ مگر
اس کا عنوان ''خرابے کا فسوں‘‘ لکھتا ہوں
وہ جو تحریر میں ہوتا نہیں سب پڑھتے ہیں
پسِ دیوار کے ہر راز کو یوں لکھتا ہوں
جتنے ختمے ہیں وہ بنتے ہیں سوالی لہجے
مسکراتے ہوئے جب حالِ زبوں لکھتا ہوں
کون‘ کیا‘ کیسے‘ کہاں‘ کب کے سوالات پہ اب
میرے مالک میں فقط کن فیکوں لکھتا ہوں
بس یہی سوچ کے ہر روز اُٹھاتا ہوں قلم
کیا خبر کل میں رہوں یا نہ رہوں لکھتا ہوں
بات کہہ دینا تو پنجرے سے اڑانا ہے پرند
اس سے پہلے کہ میں ہر بات کہوں‘ لکھتا ہوں
آج کا مقطع
جانِ ظفرؔ درکار ہے اب تو
میٹھی بات اور پھیکی چائے