جانے کی فکر سے وزیراعظم کی
راتوں کی نیند اڑ گئی: سراج الحق
امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''جانے کی فکر سے وزیراعظم کی راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے‘‘ اور صرف دن کی نیند برقرار ہے جس کا خوب لطف اٹھاتے اور جی بھر کے سوتے ہیں حتیٰ کہ خواب بھی اسی دوران دیکھتے ہیں جو زیادہ تر ڈراؤنے ہی ہوتے ہیں اور اکثر ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتے ہیں جبکہ خواب زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ وہ اگلی بار پھر وزیراعظم بن گئے ہیں اور مہنگائی‘ بیروزگاری کے طعنے مزید پانچ سال تک سننا پڑیں گے جبکہ راتوں کی نیند اُڑنے کی وجوہات کا بھی کھوج لگا رہے ہیں کیونکہ پروں کے بغیر تو کوئی چیز بھی اُڑ نہیں سکتی‘ یہ پروں کے بغیر ہی کیسے اُڑ گئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کے دوران گفتگو کر رہے تھے۔
شہزاد اکبر کے استعفے کی وجوہات
سے لاعلم ہوں: شبلی فراز
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''شہزاد اکبر کے استعفے کی وجوہات سے لاعلم ہوں‘‘ کیونکہ ہم اس چیز سے مکمل طور پر بے نیاز ہیں کہ پارٹی یا حکومت میں کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہو رہا کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فراموش ہو جاتا ہے اور ہم پہلے کی طرح ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں بلکہ اب تو ہم اخبار پڑھتے اور نہ ہی ٹی وی دیکھتے ہیں کہ کہیں پتا نہ چل جائے کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس پر حیران اور پریشان ہونے کی زحمت سے ہم بچ جاتے ہیں، نیز کچھ ہونے نہ ہونے کی فکر ان کو ہونی چاہیے جو یہ سب بھگت رہے ہیں اور اپنے اپنے اعمال کی سزا ہر کسی کو مل کر ہی رہتی ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
چار برسوں میں ایک دھیلے کی
کرپشن ثابت نہ ہو سکی: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور نواز لیگ کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''چار سالوں میں ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ ہو سکی‘‘ اور ہوتی بھی کیسے کیونکہ ہم طبع کے غریب نہیں جو دھیلوں اور پائیوں کی کرپشن کرتے‘ جو ویسے بھی شایانِ شان نہیں تھی کیونکہ لوگ جب ہمارے علم کے بغیر ہمارے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے جمع کرا جاتے تھے تو ہمیں دھیلوں کی کرپشن کی ضرورت ہی کیا تھی اور اگر ہم نے خدانخواستہ کسی دھیلے یا پائی کی کرپشن کی ہوتی تو وہ ثابت بھی ہو جاتی اور عجیب بات یہ ہے کہ روپوں اور ڈالروں تک کسی کا دھیان ہی نہیں گیا جبکہ اس سے زیادہ بے دھیان حکومت اور کیا ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اپوزیشن 23مارچ کو اسلام آباد نہ آئے‘ کوئی
کرائے کا ایجنٹ مستی کر دے گا: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن 23مارچ کو اسلام آباد نہ آئے‘ کوئی کرائے کا ایجنٹ مستی کر دے گا‘‘ اگرچہ کرائے کے ایجنٹوں کو گڑ بڑ کرنے کی ہدایات نہیں ہیں؛تاہم مستی میں آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے کیونکہ فطری طور پر یہ لوگ مست ہی ہوتے ہیں اور ہم کسی بھی مست کی کسی کارروائی کے ذمہ دار نہیں ہیں کیونکہ مست شخص کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کوئی غلط کام کر رہا ہے حالانکہ اپنی طرف سے وہ صحیح کام ہی کر رہا ہوتا ہے۔ نیز کبھی کبھار مستی کا عالم ہم پر بھی طاری ہو جاتا ہے اس لیے ہماری کسی کارگزاری پر بھی فکرمند ہونے کی کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز سینیٹ اجلاس میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
وزیراعظم کس کو پیغام دینا چاہتے ہیں: شیری ر حمن
پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کس کو پیغام دینا چاہتے ہیں؟‘‘ کیونکہ ہمیں تو کوئی پیغام دینے کی انہیں ضرورت ہی نہیں ہے کہ ہم تو واضح طور پر اعلان کرچکے ہیں کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے؛ البتہ حکومت مخالف بیانات محض دل پشوری کیلئے ہوتے ہیں۔ لانگ مارچ کا اعلان بھی دل پشوری کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے کیونکہ ہر دو سطح پر ہماری بات ہوچکی ہے اس لیے ہمیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘ پھر بھی حکومت کو اگر ہمارے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوتو براہِ کرم اپنے دل سے نکال دے کیونکہ ہم بھی ایک طرح سے اُسی کا اتحادی ہیں کیونکہ ہمارا ہدف بھی نواز لیگ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں فیصل ہاشمی کے مجموعۂ کلام ''ماخذ‘‘ میں سے یہ نظم:
اندیشہ ہائے دور دراز
ابھی جس بات کو،
جس سانحے کو
رونما ہونے میں شاید
عمر لگ جائے
وہ اندیشہ مجھے گھیرے ہوئے ہے
آج کیوں آخر!
ابھی جس موت کی لذت سے میں
نا آشنا ٹھہرا
میں اُس کے ذائقے کے کڑوے پن سے
کس لیے بے حال ہوتا ہوں!
میں اپنی ذات کے اَندھے گپھا میں
کچھ اندھیروں سے بنی چادر کو اوڑھے
زندگی کی بے کراں عظمت کا، اک
بے نام نقطہ ہوں!
یہ میں کن اُلجھنوں میں
عبرتوں کے جبر خانے میں مقید ہوں
غلط آثار-آوارہ چلن
بیمار ور قصیدہ
تمنائوں کے سُر اور تال کا
خوں بار نوحہ ہوں!
آج کا مطلع
اختیار اب کچھ تو ہمارا ہو سکتا ہے
تجھ سے نہیں‘ خود سے تو کنارا ہو سکتا ہے