"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، ’’مکالمہ‘‘ اور سدرہ سحر عمران

پی ٹی آئی حکومت کا سورج مایوسی اور بے بسی
کے ساتھ غروب ہو رہا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی حکومت کاسورج مایوسی اور بے بسی کے ساتھ غروب ہو رہا ہے‘‘ حالانکہ یہ مایوسی اور بے بسی کے بغیر بھی بڑے آرام سے غروب ہو سکتا ہے کیونکہ رات ختم ہونے کے بعد اُسے پھر طلوع ہونا ہوتا ہے‘ سو یہ مایوسی اور بے بسی کا نہایت غلط استعمال ہے جبکہ ہر چیز کے غلط استعمال کے ساتھ ساتھ اسے کچھ چیزیں صحیح طور پر بھی استعمال کرنا چاہئیں مثلاً ان کے اقتدار کا سورج اگر صحیح طور سے غروب ہونا ہی سیکھ لے تو بہت سے معاملات درست ہو سکتے ہیں؛ تاہم ہم حکومت کی سہولت کے لیے کچھ کاموں کی فہرست بنانے کے ساتھ اُنہیں صحیح طریقہ بھی بتا رہے ہیں تاکہ وہ راہِ راست پر آ سکے۔ آپ اگلے روز چکدرہ دیر پائن میں شمولیتی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت نے علاج فراہمی کے لیے
غریب‘ امیر کا فرق مٹا دیا: حسان خاور
وزیراعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی حسان خاور نے کہا ہے کہ ''حکومت نے علاج فراہمی کے لیے امیر‘ غریب کا فرق مٹا دیا‘‘ جس پر امیر طبقے نے سخت اعتراض کیا ہے کہ ہم جو اتنی محنت اور تگ و دو سے امیر ہوئے ہیں، ہمیں غریب اور فقرے لوگوں کے ساتھ ملا دیا گیا ہے جو سرا سر زیادتی ہے جبکہ غریب لوگ حکومت سے اس لیے ناراض ہیں کہ امیر لوگوں کے ساتھ ملا کر حکومت نے اُن کی غربت کا مذاق اُڑایا ہے جبکہ فرق کے اس خاتمے کے بعد بھی امیر لوگ نہ ان کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے ہیں نہ مل بیٹھنا اور نہ ہی کھانا پینا، اس لیے حکومت سے ان کی استدعا ہے کہ براہِ کرم ان کے تشخص اور پہچان کو حسبِ سابق بحال کیا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔
ہم میدان میں اُترے تو حکمران بھاگ
جائیں گے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم میدان میں اُترے تو حکمران بھاگ جائیں گے‘‘ جبکہ ہم اب تک حکمرانوں کو بھگانے میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکے کہ ہم میدان میں اُترنے کے بجائے سڑکوں پر ہی پھرتے رہے ہیں، اس لیے ہم اُترنے کے لیے کسی اچھے سے میدان کی تلاش میں ہیں اور ہمیں جونہی اس کا کوئی سراغ ملا تو ہم کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی‘ اللہ کا نام لے کر اس میں اُتر جائیں گے؛ چنانچہ ایک سب کمیٹی قائم کر دی گئی ہے کہ کوئی اچھا سا میدان تلاش کرے تاکہ ہم اس میں اتر کر حکمرانوں کو بھگا سکیں اور ہم اس میں ضرور کامیاب ہوں گے کیونکہ ہم نے ناکامیوں کا کوئی ٹھیکہ نہیں اُٹھا رکھا۔ آپ اگلے روز چمن میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
سو فیصد یہ نہیں کہہ سکتا کہ لانگ مارچ
کامیاب ہو گا: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سو فیصد یہ نہیں کہہ سکتا کہ لانگ مارچ کامیاب ہوگا‘‘ جس کا کوئی مقصد نہیں ہو گا ماسوائے ایک ریہرسل کے جو آئندہ عام انتخابات کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ حکومت کو گرانا پروگرام میں شامل ہی نہیں جس کے لیے ہم نے تحریک عدم اعتماد کی شرط لگا رکھی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اکثریت حاصل ہونے کا کہیں دُور دُور تک کوئی امکان نہیں ہے جبکہ ویسے بھی ہر نازک موقع پر ہمارے ارکان کا ہاؤس میں حاضر ہونا غیر یقینی ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز بلاول ہاؤس لاہور میں پارٹی کے بیورو چیفس سے گفتگو کر رہے تھے۔
مکالمہ 56، 57، 58
کراچی سے ہمارے دوست مبین مرزا کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ''مکالمہ‘‘ کے ایک ساتھ تین شمارے موصول ہوئے ہیں۔ ان پر کسی تبصرے کے بجائے صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ یہ اشاعت پذیر ہو چکے ہیں کیونکہ اس پرچے کے معیار کے حوالے سے کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی۔ ہر پرچہ حسبِ معمول مضامینِ نظم و نثر کا ایک خوبصورت مرقع ہے جو ملک کے نامور شعرا و ادبا کی نگارشات کا حامل ہے، جن میں ڈاکٹر جمیل جالبی، حسن منظر، ڈاکٹر تحسین فراقی، یاسمین حمید، حسین مجروح، اصغر ندیم سیّد، افتخار عارف، ڈاکٹر رؤف خیر، محمد حمید شاہد، نجیبہ عارف، ڈاکٹر اسلم انصاری، فاروق خالد، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر، جمیل الرحمن اور دیگران شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمیم حنفی اور مسعود اشعر کیلئے خصوصی گوشوں کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس طرح ان مرحومین کی یاد اور ان کی ادبی خدمات کا اہتمام و اعتراف کیا گیا ہے۔
اور‘ اب آخر میں سدرہ سحر عمران کی شاعری:
توڑ دیا شیشہ کھڑکی کا چھوڑی ایک نشانی پیچھے
گھر سے آدھی رات کو نکلے رکھ آئے ویرانی پیچھے
بہتے بہتے کچھ یادیں ساحل تک آ جاتی ہیں لیکن
آنکھ کنارے لگتی ہے تو مُڑ جاتا ہے پانی پیچھے
بہروپ بھرے بنجارے کا جو گلیوں گلیوں پھرتا ہے
اک راجہ دل ہار گیا تھا پھولوں کی اک رانی پیچھے
سنسان بدن کی سڑکوں پر جب تیری آنکھیں بھٹکیں گی
تب رستا شور مچائے گا اور گونجے گی حیرانی پیچھے
دل دریا کی خاطر ہم نے کتنے صحرا چھوڑ دیے‘ پر
جتنی بھی آباد گلی ہو آتی ہے ویرانی پیچھے
محبت کی جوٹھن
میرے بدن کی سفید ململ پر
آج پھر میرے مرد نے
تیری یاد کا جامنی
پھول کھلایا ہے
دیکھ ماضی کی سیاہ پوروں سے
ابھی تک نیلا رنگ بہہ رہا ہے
مگر میں اپنے زخموں کی اوڑھنی
بدن سے لپیٹے
تیری ہنستی ہوئی آنکھوں کا چرخہ
کاتے جا رہی ہوں
دن سونے کی طرح مہنگے ہو گئے
لیکن رات ابھی بھی کوئلے جیسی سستی ہے
یاد ہے
ہنسی کے کھیل میں
میں ہمیشہ تم سے جیت جاتی تھی
لیکن آج پہلی بار تو نے مجھے ہرا دیا
آج کا مقطع
شاعری ہی نہیں ظفرؔ کافی
یعنی اخبار میں بیان بھی دے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں