شہباز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں: حسین نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے کہا ہے کہ ہم ''شہباز شریف کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ اور اس خواہش میں ابا جان خود بھی شامل ہیں کیونکہ جب سے یہ اطلاعات ملی ہیں کہ چچا جان کے خلاف مقدمات میں تیزی آنے کی توقع ہے اور جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کیسز جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتے ہیں جس سے دیگران کا راستہ بالکل صاف ہو جائے گا، تب سے یہ اعلان کرنا ضروری ہو چکا ہے تاکہ ایک تو پارٹی میں موجود دھڑے بازی ختم ہو جائے اور اس خوشخبری سے شہباز شریف زیادہ سے زیادہ فعال بھی ہو جائیں اور اگلے انتخابات تک وہ اسی خیالِ خام میں مست رہیں کہ وہ واقعی وزیراعظم بن سکتے ہیں ۔ آپ اگلے روز لندن میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
نواز شریف شان و شوکت سے گئے، اپنی
مرضی سے واپس آئیں گے: رانا ثنااللہ
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف شان و شوکت سے گئے اور اب اپنی مرضی سے واپس آئیں گے‘‘ اگرچہ یہ شان و شوکت حاصل کرنے کیلئے انہیں کئی پاپڑ بیلنا پڑے تھے اور اپنے پلیٹ لیٹس اُوپر تلے ہونے کا بہانہ بھی رچانا پڑا تھا کیونکہ شان و شوکت ایسی چیزیں ہیں جو آسانی سے اور مفت میں حاصل نہیں کی جا سکتیں اور اب جس طرح انہیں واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں وہ ان کی شان و شوکت کے سراسر خلاف ہیں اور ہو سکتا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد برطانوی حکومت اُنہیں اُسی شان و شوکت سے خود ہی ڈیپورٹ کر دے کیونکہ ان کا پاسپورٹ اور ویزا پہلے ہی پوری شان و شوکت سے ختم ہو چکے ہیں۔ آپ ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
حکومتی اقدامات سے اپوزیشن چاروں
شانے چت ہوچکی ہے: حسان خاور
وزیراعلیٰ پنجاب کے معاونِ خصوصی و ترجمان حسان خاور نے کہا ہے کہ ''حکومتی اقدامات سے اپوزیشن چاروں شانے چت ہو چکی ہے‘‘ اگرچہ شانے تو دو ہی ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ باقی دو شانے حکومت کے اپنے ہیں جیسا کہ ایک محاورے کے مطابق بھوکے نے بھوکے کو تھپڑ مارا اور دونوں بے ہوش ہو گئے؛ تاہم حکومت بے ہوش تو نہیں ہوئی لیکن اسے مکمل طور پر باہوش بھی نہیں کہا جا سکتا جو اس کے متعدد بلکہ اکثر اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے، بہرحال حکومت تو اس دنگل کے بعد جوں توں کر کے اُٹھ بیٹھی ہے، البتہ اپوزیشن اب تک کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کی معاشی پالیسی ہاتھ
پھیلاؤ، کشکول اُٹھاؤ ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کی معاشی پالیسی ہاتھ پھیلاؤ‘ کشکول اٹھاؤ ہے‘‘ اور اسے اس دہری زحمت سے بچنا چاہیے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام یعنی یا تو ہاتھ پھیلایا جا سکتا ہے یا کشکول اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک ہاتھ پھیلایا ہو اور دوسرے میں کشکول پکڑ رکھا ہو‘ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ تقسیمِ کار کے صحیح طریقوں کو اپنائے اور اپنی انرجی خواہ مخواہ ضائع نہ کرتی پھرے جبکہ اپوزیشن تو ویسے ہی نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ خود حکومت بھی نہ ہونے کے برابر ہو کر رہ گئی ہے جو بے حد تشویشناک صورتحال ہے۔ آپ اگلے روز مرکزِ اسلامی پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم سر درد والی تقریریں بند کریں: احمد جواد
پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری اطلاعات احمد جواد نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان سردرد والی تقریریں بند کریں‘‘ کیونکہ میں آدھے سر درد کا مریض تو پہلے ہی تھا، اب تقریروں کی وجہ سے پورے سردرد میں مبتلا ہو گیا ہوں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ درد روز بروز بڑھتا اور سر غائب ہوتا جا رہا ہے، اس لیے میری درخواست ہے کہ کم از کم میری سابقہ خدمات ہی کا کچھ خیال کرتے ہوئے ایسی تقریروں سے اجتناب کریں، اگرچہ اُنہیں غالباً خدمات ہرگز نہیں کہا جا سکتا لیکن شروع سے ہی یہ وتیرہ ہے کہ صحیح کام بھی ہمیشہ غلط وقت پر ہی کیا جاتا ہے یا اس میں بہت تاخیر کر دی جاتی ہے۔ آپ اگلے روز اپنے ٹویٹس کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
کچھ اس طرح بھری دنیا سے جانے والا ہوں
کہ اپنے بعد بھی میں خود ہی آنے والا ہوں
اور اپنے چاروں طرف راستے بناتا ہوا
میں درمیان میں دیوار اُٹھانے والا ہوں
نہیں ہے اس کے لیے لفظ ہی کوئی موجود
ابھی جو بات میں اُس کو بتانے والا ہوں
کچھ اُس کے دل سے نکل تو چکا ہوں میں لیکن
کہیں نہ جاؤں گا‘ آخر ٹھکانے والا ہوں
زمانے سے تو لڑائی میں لڑ نہیں سکتا
سو‘ اپنے آپ کو خود سے لڑانے والا ہوں
نہیں اگرچہ کسی طور ابنِ مریم تو
میں‘ جس کو مار دیا ہے‘ بچانے والا ہوں
یہ فرشِ خاک جو میرے لیے ہے ناہموار
میں آسمان زمیں پر بچھانے والا ہوں
سب اپنے عیب تو بتلا چکا ہوں دُنیا کو
ابھی میں ایک ہنر بھی دکھانے والا ہوں
زمانہ گوش بر آواز ہو‘ ظفرؔ‘ کہ نہ ہو
یہ گیت آخری ہے جو میں گانے والا ہوں
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ وہ یک بہ یک پانی کی رنگت بدل جانی
سفینے اور ہو جانے ستارہ اور ہو جانا