"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور فیصل ہاشمی

حکومت ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ کے
اندر جنگ کریں گے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور نواز لیگ کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''حکومت ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ کے اندر جنگ کریں گے‘‘ کیونکہ پارلیمنٹ سے باہر جنگ کا انجام ہمیں صاف نظر آ رہا ہے اور لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو ہٹانے اور وزیراعظم کو بھگانے کے جو وعدے کیے گئے تھے‘ وہ واپس لے لیے ہیں اور پارلیمنٹ میں جنگ کے دعووں کے ساتھ انہیں ملا کر دیکھا جائے گا کیونکہ عدم اعتماد کا اگر کوئی چانس ہوتا تو ہم کب کا یہ مرحلہ عبور کر چکے ہوتے اور اس لیے ساری ذمہ داری قائدِ محترم کی سونپ دی گئی ہے کیونکہ ہم نے ہر موقع پر شکست کھانے کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے رکھا اور کچھ کام اُن کے کھاتے میں بھی جانا چاہیے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں حاضری کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
2023ء سے پہلے بہت سارے لوگ نون
لیگ چھوڑ جائیں گے: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''2023ء سے قبل بہت سارے لوگ نون لیگ چھوڑ جائیں گے‘‘ بلکہ یہ سال بھی پارٹی چھوڑنے والوں کا ہے کیونکہ ہمارے کچھ لوگ بھی ہمیں چھوڑ جانے کیلئے پَر تول رہے ہیں اس لیے جتنے لوگ جائیں گے‘ اتنے آ بھی جائیں گے اور حساب برابر ہو جائے گا اور حساب کا برابر رہ جانا بھی بہت بڑی بات ہے حالانکہ ہماری قوم حساب میں بہت کمزور واقع ہوئی ہے اور اس طرح اس کی مشق بھی ہو جائے گی کیونکہ زندہ قومیں ہمیشہ اپنا حساب کتاب پورا رکھتی ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر کام زندہ قوموں والے نہیں ہیں؛ تاہم ہم اسے زندہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے اپنا ٹویٹ پیغام جاری کر رہے تھے۔
حکومت نے ملک کی کشتی ڈبودی: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت نے ملک کی کشتی ڈبو دی‘‘ اور ہم جو ہر طرف ڈبکیاں لگا رہے اور غوطے کھا رہے ہیں اور کشتی کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آ رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کشتی ڈوب چکی ہے جبکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ کشتی ڈبونے سے پہلے کم از کم ہمیں اس سے اتار دیتی؛ اگرچہ مچھلی کی طرح پتھر چاٹ کر ہم لانگ مارچ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور سارا زور تحریک عدم اعتماد پر لگائیں گے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے نمبر ہی پورے نہیں ہو رہے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو عین وقت پر کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہو جاتی ہے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھرجاتا ہے؛ تاہم اب یہ بیان بازی ہی باقی رہ گئی ہے تاکہ یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ ہم پیچھے ہٹ گئے ہیں جبکہ جنہیں ہٹنا تھا ‘ وہ ہمیں بیچ میں چھوڑ کر پہلے ہی بھاگ چکے ہیں۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
معذورسرکاری ملازمین کے مسائل
حل کریں گے: شوکت ترین
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''معذور سرکاری ملازمین کے مسائل حل کریں گے‘‘ البتہ جو معذور نہیں ہیں وہ اپنے مسائل پہلے ہی حل کر رہے ہیں اور اس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ ان کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا قابلِ صد ستائش ہے کیونکہ ان کے زیادہ تر مسائل مالی ہوتے ہیں‘ جنہیں یہ خود حل کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور ہم پر ان کے مسائل حل کرنے کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہا ہے اور وہ ہر شعبے میں خود کفیل ہیں اور مسائل کے حل کیلئے ہماری طرف نہیں دیکھتے، کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ کسی کی محتاجی سے بہتر ہے کہ اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہوا جائے جس میں وہ قابلِ ذکر حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اور ہم نے بھی ان سے کبھی نہیں پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سپیشل پرسنز فورم سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
حکومت گرنے کے قریب ‘ ہلکا سا دھکا چاہیے: سسی پلیجو
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سسی پلیجو نے کہا ہے کہ ''حکومت گرنے کے قریب ہے‘ ہلکا سا دھکا چاہیے‘‘ لیکن ہم ساری توانائی تو اِدھر اُدھر پہلے ہی ضائع کر چکے ہیں اور اب ہلکا سا دھکا لگانے کے بھی قابل نہیں رہے بلکہ خود دھکا سٹارٹ ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کو چلانے کیلئے دھکے کی ضرورت رہتی ہے‘ اس لیے کسی چھوٹے موٹے دھکے کی تلاش میں ہیں کہ اگر وہ کہیں سے مل جائے تو حکومت کو گرا سکیں۔ اگرچہ یہ بھی رسمی سی باتیں ہیں کیونکہ ہم یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ہم حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں ہیں اور اسے اپنی مدت پوری کرنی چاہیے اور جہاں تک حکومت کے خلاف بیان بازی کا تعلق ہے تو یہ محض اس لیے ہے کہ کہیں عوام یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم حکومت کے حق میں ہیں۔ آپ اگلے روز دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور، اب آخر میں فیصل ہاشمی کی نظم:
ایک انوکھی یکتائی
آج جو میں پاتال سے باہر
اُس رسّی کو تھام کے نکلا
جس کے پھندے دار سِرے پر
یہ دُنیا اِک گیند کی صورت
لٹک رہی تھی
کوئی نہیں تھا مرنے والا، جینے والا
ہر جانب بس مَیں ہی مَیں تھا!
کرنوں کے پردے کو ہٹا کر
میں نے دیکھا... وقت کا چہرہ‘
اس کی آنکھیں... ایک سمندر
جس کے اندر کچھ بھی نہیں تھا، خالی پَن تھا
کل اور آج
اور آنے والے کل کے بھنور سے
چکراتے اوسان لیے
اِک جَست بھری تھی
اور پھرمیں بھی، اُس سیّال کے
خالی پَن کا حصہ بنا تھا
خود سے نکل کر، پیچھے ہٹتے
لمحہ لمحہ اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا
ایک انوکھی یکتائی میں لامحدود ہوا تھا!
آج کا مطلع
ذرا بھی فرق نہیں ہو بہو دھڑکتا ہے
یہ دل نہیں میرے سینے میں تُو دھڑکتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں