"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، ادبِ لطیف اور صابر ظفر

عوام کی زندگی جہنم‘ اب کوئی ڈھیل
نہیں دی جائے گی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عوام کی زندگی جہنم ہو گئی ہے‘ اب کوئی ڈھیل نہیں دی جائے گی‘‘ کم از کم ہم کوئی ڈھیل نہیں دیں گے اور حکومت کو ہم نے بتا دیا ہے اور دوسری جماعتوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ بھی ہماری طرح کوئی ڈھیل دینے سے صاف انکار کردیں جبکہ ہمارا انکار بارش کاپہلا قطرہ ثابت ہوگا اور قطرہ قطرہ جمع ہو کر ہی دریا بنتا ہے‘ ورنہ ہمارے ا س قطرے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ ضائع ہی چلا جائے گا۔ ویسے تو اس میں اتنی برکت ہے کہ یہ اکیلا ہی دریا بننے کے قابل ہو گا اور باقی جماعتوں کی شمولیت کی ضرورت ہی نہ پڑے گی اور حکومت کو یہ ایک قطرہ ہی بہا لے جائے گا۔ آپ اگلے روز منصورہ میں مجلسِ عاملہ کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اتحادی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں‘ اپوزیشن کو
جمہوری طریقے سے جواب دیں گے: شاہ محمود
وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''اتحادی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں‘ اپوزیشن کو جمہوری طریقے سے جواب دیں گے‘‘ اور امید ہے کہ اتحادی آئندہ بھی اسی طرح کھڑے رہیں گے ؛اگرچہ وہ کافی دیر سے کھڑے ہیں اور تھک بھی چکے ہوں گے لہٰذا وہ کچھ دیر کے لیے بیٹھ بھی سکتے ہیں بشرطیکہ وہ دوبارہ اٹھنے اور کھڑے ہونے کے قابل رہ جائیں، تاہم براہِ کرم لیٹنے سے گریز کریں کیونکہ آدمی ایک بار لیٹ جائے تو وہ سو بھی سکتا ہے اور اگر اُسے سُہانے خواب آناشروع ہو جائیں تووہ خواب ختم کر کے ہی اُٹھتا ہے؛ البتہ اگر وہ واقعتاً کھڑے ہونے کے قابل نہ رہے ہوں تو ہم انہیں چھوٹی بیساکھیاں مہیا کر سکتے ہیں کیونکہ بڑی بیساکھیوں پر ہم خود کھڑے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں چودھری پرویز الٰہی سے کیے گئے اپوزیشن کے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
ہو سکتا ہے چند روز تک چودھری برادران
سے ملاقات ہو جائے: عطا اللہ تارڑ
مسلم لیگ نواز کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ''ہو سکتا ہے چند روز میں چودھری برادران سے ملاقات ہو جائے‘‘ اگرچہ انہوں نے ساتھ چلنے سے معذرت کر دی ہے؛ تاہم ملاقاتیں تو ہوتی ہی رہنی چاہئیں‘ نتیجہ بھلے کچھ بھی نہ نکلے، کیونکہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں ہمیں اس کا بھی یقین ہے کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ حکومتیں ملاقاتوں سے نہیں جایا کرتیں جبکہ ہمارے پاس ملاقاتوں کے علاوہ کچھ اور کرنے کو ہے ہی نہیں اس لیے کچھ نہ کچھ توکرنا ہی چاہیے کہ بقول شاعر ؎
بیکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی اُدھیڑ کر سیا کر
آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
اتحادی ہو یا کوئی اور‘ جو عمران خان کو
چھوڑے گا صفر ہو جائے گا: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''اتحادی ہو یا کوئی اور‘ جو عمران خان کو چھوڑے گا، صفر ہو جائے گا‘‘ اور ایسے لوگوں سے ڈر بھی لگتا ہے کہ ساتھ چھوڑتے چھوڑتے کہیں حکومت کو بھی لے کر نہ بیٹھ جائیں یعنی ؎
ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے
تاہم اس کا مطلب یہی ہے کہ اچھے اور برے دونوں وقتوں میں ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ جو دن چڑھ آیا ہو اسے شام کو ڈوبنا تو ہوتا ہی ہے جبکہ ساتھ ڈوبنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے جبکہ پہلے ڈبکیاں لگائی جاتی ہیں اور پھر غوطے کھائے جاتے ہیں اور پھر سب کچھ منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے‘ اس لیے امید ہے کہ ہم اگر ڈوب بھی رہے ہوں تو اتحادیوں کو ہمارا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آپ اگلے روز پشاور پریس کلب میں ایک تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ادبِ لطیف
قدیم اور ممتاز جریدے ماہنامہ ادبِ لطیف کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے جس میں حسبِ معمول ملک کے معروف ادبا و شعرا کی تخلیقات شامل کی گئی ہیں جن میں نمایاں نام اس طرح سے ہیں: محمد الیاس، عذرا اصغر، سہیل ممتاز خان، فضیلت بانو، شاکر انور، اعجاز روشن، سلیم اختر ڈھیرو، محمد ظہیر بدر،نجمہ ثاقب، آسناتھ کنول، سعدیہ بشیر، فیصل القدسی، صابر ظفر، نسیم سحر، جان کاشمیری، اشرف جاوید، شاہدہ حسن، طالب انصاری، افضل خان، ناصر بشیر، مجاہد سعید، ناصرہ زبیری، گل فراز، اسد چوہان، یہ خاکسار، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، سعید ابراہیم، مقصود وفا، ڈاکٹر امجد طفیل، طارق نعیم، ڈاکٹر بی بی امینہ، زاہد حسن، امجد علی شاکر، ڈاکٹر خالق تنویر، فاخرہ حسن،رضیہ بیلا سید، فائزہ حسن، ڈاکٹر اسد اریب، آکاش مغل، مبشر علی زیدی ، عارف مصطفی و دیگران، جبکہ پرچے کے مرحوم سابق ایڈیٹر ناصر زیدی کے لئے گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔ شعبۂ ادارت میں مظہر سلیم مجوکہ اور شہزاد نیر ہیں۔
اور‘ اب اسی شمارے میں شائع ہونے والی صابر ظفر کی یہ غزل:
جینے کی آرزو میں فنا ہونے آئے ہیں
یعنی سپردِ روزِ جزا ہونے آئے ہیں
دیکھو ہجومِ دیں فروشاں بشکل عشق
کتنے خدا پرست خدا ہونے آئے ہیں
بوسہ تو ایک ثانوی صورت ہے قرب کی
ہم آپ کے لبوں سے ادا ہونے آئے ہیں
جس چپ پہ اشتباہِ محبت رہا ہمیں
اُس چپ کی خواہشوں کی صدا ہونے آئے ہیں
ان قیدیوں کی آؤ بھگت تم پر فرض ہے
آنکھوں سے یہ جو اشک رہا ہونے آئے ہیں
ہم میں کوئی بھی شاعروں والی نہیں ہے بات
قرضِ سخن ہیں ہم جو ادا ہونے آئے ہیں
آہنگِ دلبری سے نظامِ جہاں چلے
حبسِ ہُنر میں نظمِ ہوا ہونے آئے ہیں
کیسے ظفرؔ وجود وعدو کی گرہ کھلے
کیا ہو گئے ہیں اور یہاں کیا ہونے آئے ہیں
آج کا مطلع
لوگوں کو آخر اُن کی اپنی راہوں پر ڈال دیا
یوں تصویرِ سخن سے میں نے اپنا آپ نکال دیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں