"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور سدرہ صدف عمران

وزیراعظم کی گھبراہٹ سیاسی ملاقاتوں سے
نہیں‘ملکی تباہی سے ہے: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف، مسلم لیگ نواز کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کی گھبراہٹ سیاسی ملاقاتوں سے نہیں‘ ملکی تباہی سے ہے‘‘، حالانکہ ہمارے دور میں یہ تباہی زیادہ تھی لیکن ہم گھبرائے نہیں تھے بلکہ ملکی و غیر ملکی اثاثے قائم کر کے تعمیری کام کر رہے تھے جبکہ گھبرانے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں تھا بلکہ سارا کچھ اطمینان سے اور تسلی بخش طریقے سے ہو رہا تھا اور فکر اگر تھی تو صرف یہ کہ کام کی رفتار زیادہ تیز ہونی چاہیے اور جہاں تک ملک کا تعلق ہے تو یہ ہوتے ہی اس لیے ہیں جو کچھ عرصہ بعد قدرتی طور پر دوبارہ اپنی اصلی حالت پر آ جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
منڈی بہائو الدین! تیار ہو جائو
وزیراعظم آ رہے ہیں: فیصل جاوید
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ '' منڈی بہائو الدین! تیار ہو جائو‘ وزیراعظم آ رہے ہیں‘‘ اور میں منڈی بہائو الدین کے عوام کو بروقت خبردار کر رہا ہے تا کہ کوئی بعد میں یہ نہ کہے کہ ہمیں کسی نے بتایا ہی نہیں تھا اور نہ ہی وہ کہیں ادھر ادھر جانے کی کوشش کریں کیونکہ وزیراعظم انہیں کچھ نہیں کہیں گے ماسوائے اس کے کہ وہ کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے اور انہیں ان کے حتمی مقام پر پہنچا کر چھوڑیں گے‘ چاہے وہ جتنا مرضی زور لگا لیں‘ جبکہ اس کے علاوہ وہ لوگوں کو نہ گھبرانے کی تلقین کریں گے‘ اس کے علاوہ وہ بتائیں گے کہ پاکستان میں مہنگائی دوسرے ملکوں سے بہت کم ہے‘ باقی اللہ اللہ خیر سلا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت ٹیلیفون کالز پر کھڑی‘ کالز بند ہو گئیں
تو عدم اعتماد ہو جائے گا: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''حکومت ٹیلیفون کالز پر کھڑی ہے جس دن کالز بند ہو گئیں عدم اعتماد ہو جائے گا‘‘ کیونکہ پہلے وہ سہاروں پر کھڑی تھی‘ اب ہمارے کہنے پر سہارے تو ہٹا لیے گئے ہیں اور ٹیلیفون کالز شروع کر دی گئی ہیں، حالانکہ اس سے تو سہارے ہی ٹھیک تھے کیونکہ ٹیلیفون کالز سے تازہ تازہ صورت حال کا پتا چلتا رہتا ہے جبکہ ہم خوش ہو رہے تھے کہ اب یہ سہارے حسبِ سابق ہمارے حوالے کر دیے جائیں گے جبکہ ٹیلیفون کالز بھی ان لوگوں کے لیے ہی ہوتی ہیں جنہوں نے ہم سے عدم اعتماد میں ساتھ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن یہ لوگ کھڑے کھڑے ہی مکر جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت اور وزیراعظم کی کارکردگی سے
مطمئن نہیں: عارف جتوئی
پی ٹی آئی کے اتحادی‘ جی ڈی اے کے رکن سندھ اسمبلی عارف مصطفی جتوئی نے کہا ہے کہ ''ہم حکومت اور وزیراعظم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں‘‘ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم حکومت کے ساتھ نہیں ہیں کیونکہ مطمئن تو حکومت اپنی کارکردگی سے خود بھی نہیں اور اس بیان کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور مجھے یقین ہے کہ اس بیان کے بعد حکومت اور وزیراعظم اپنی کارکردگی کو فوری طور پر بہتر بنا لیں گے جبکہ خاکسار کے علاوہ یہ بات آج تک حکومت سے کسی نے کہی ہی نہ ہو گی اور اس بیان کی جتنی بھی داد دی جائے‘ کم ہے؛ اگرچہ یہ عاجز سارے کام داد حاصل کرنے کے لیے نہیں کرتا‘ اور نہ ہی ان پر غرور کرتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں سندھ اسمبلی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کا کھیل ختم‘ ہمارا شروع: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت کا کھیل ختم‘ ہمارا شروع ہے‘‘ اور اگر چھپن چھپائی کے اس کھیل میں ہم پکڑے بھی گئے تو کوئی با ت نہیں کیونکہ یہ کھیل ہی ایسا ہے جس میں کبھی ہم پکڑے گئے‘ کبھی وہ‘ ویسے بھی یہ ہمارے کھیلنے کھانے کے دن ہیں یعنی کھانے کے کم اور کھیلنے کے زیادہ جبکہ یہ ساری تگ و دو کھانے کے دن واپس لانے ہی کے لیے ہیں اور شاید اسی لیے اس میں کامیاب بھی نہیں ہو رہے کہ قدرت کو بھی ایسا منظور نہیں لگتا حالانکہ پیٹ خالی ہیں اور بھوکے شیروں کی طرح لڑ بھی زیادہ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز تحفظِ آئینِ پاکستان کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں سدرہ صدف عمران کی شاعری:
تمہارے نام کی وحشت اتار آئے ہیں
ہم ایک جسم میں صدیاں گزار آئے ہیں
زمیں لپیٹ کے‘ دریا سمیٹ کر سارے
فلک کی ساتویں کھڑکی کے پار آئے ہیں
تمہاری رات کو اس خواب سے گزرنا تھا
وہ ایک خواب جو دن میں گزار آئے ہیں
پلٹ کے آتی رہے اک صدا اداسی کی
ہم اپنے آپ میں تجھ کو پکار آئے ہیں
تمہاری آنکھ کے دوزخ سے بارہا گزرے
تمہارے خواب میں بس ایک بار آئے ہیں
کسی کے نام کے جگنو تمہاری آنکھوں میں
کسی کے ذکر پہ بے اختیار آئے ہیں
٭......٭......٭
ہر الزام بغاوت کا سر آئے گا
شیشہ بن کر سوچو پتھر آئے گا
میں دریا کی سیدھ میں چلتی جائوں گی
میری جانب رستا بہہ کر آئے گا
یہ بستی ہے گونگے بہرے لوگوں کی
اس بستی میں ایک پیامبر آئے گا
ہاں ہاں! یہ آوارہ گلیاں میری ہیں
ان کے آخر میں میرا گھر آئے گا
میں اُس سے سارے ہی پھول خریدوں گی
وہ خوابوں کا ٹھیلا لے کر آئے گا
آج کا مقطع
میں کہ اس عہد میں منکر ہوں ظفرؔ اپنا بھی
کس لیے محفلِ غالبؔ میں بلایا ہے مجھے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں