"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور تازہ غزل

رات دن چور‘ ڈاکو کہا جا رہا ہے‘
مکافاتِ عمل ہے: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، مسلم لیگ نواز کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''رات دن چور‘ ڈاکو کہا جا رہا ہے‘ یہ مکافاتِ عمل ہے‘‘ اور سراسر زیادتی بھی ہے کیونکہ اگر یہ کہنا ہی ہے تو اس کے لیے یا راتیں مخصوص کی جا سکتی ہے یا دن‘ جبکہ دن رات ایک ہی بات کہنے سے اس میں کوئی اثر بھی نہیں رہتا، نیز ہمارے زمانے میں تو مکافاتِ عمل کا کوئی تصور ہی نہیں تھا اور اگر ہمیں اس کا پتا ہوتا تو ہم وہ کچھ نہ کرتے جس کے لیے مکافاتِ عمل آن کھڑی ہوئی، یا اس میں کسی قدر کمی کا اہتمام کر دیتے اور چونکہ یہ سب لاعلمی میں ہوا ہے اس لیے قابلِ درگزر ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن رہنماؤں کو یہ تک پتا نہیں
کہ اب کیا کرنا ہے: ہمایوں اختر
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما ہمایوں اختر نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن رہنماؤں کو یہ تک پتا نہیں کہ اب کیا کرنا ہے‘‘ اور اگر واقعی یہ بات انہیں معلوم نہیں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں اور ہمارے خیال میں انہیں تحریک عدمِ اعتماد پیش کردینی چاہئے اور جتنے ارکانِ اسمبلی ان کے ساتھ ہیں‘ انہیں اس آگ میں جھونک دینا چاہیے اور اگر یہ ارکان عدم اعتماد کے لیے کافی نہ ہوں تو پھر بھی اپنی تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے اس میدان میں کود پڑنا چاہیے اگرچہ یہ وہی تقدیر ہے جس پر وہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے بھروسہ کرتے چلے آئے ہیں؛ تاہم تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی اور انہیں یہ رسک لے لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت جلد اسمبلیوں کا اعتماد کھو بیٹھے گی: شازیہ مری
پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری نے کہا ہے کہ ''حکومت جلد اسمبلیوں کا اعتماد کھو بیٹھے گی‘‘ بس ذرا ہمارے نمبرز پورے ہونے کی دیر ہے جس کے بعد عدم اعتماد ہوگا اور دُعا کرنی چاہیے کہ اس دن ہمارے کسی رکن اسمبلی کو کوئی ضروری کام نہ پڑ جائے جبکہ متعدد رہنماؤں کے بارے معلوم ہواہے کہ وہ علیل ہیں سو ان کی عیادت کے لیے جانا پڑ سکتا ہے؛ اگرچہ تقدیر کے لکھے کوئی نہیں ٹال سکتا اس لیے عیادت سے گریز نہیں کرنا چاہیے‘ سو ہماری طرف سے معذرت قبول کی جائے کیونکہ مجبوری میں یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
جب کراچی کھڑا ہوتا ہے تو پورا پاکستان
بدلتا ہے: خالد مقبول صدیقی
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ''جب کراچی کھڑا ہوتا ہے تو پورا پاکستان بدلتا ہے‘‘ اور اب تک پورا پاکستان بدلا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کراچی اب تک کھڑا نہیں ہوا‘ وہ آدھا بیٹھا ہوا ہے تو آدھا لیٹا ہوا‘ اور اکثر افراد خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں بلکہ گھوڑے بیچ کر سوئے ہوئے ہیں جنہیں جگانے اور کھڑا کرنے کے لیے ہم نے اپنا ڈھول بجانا شروع کر دیا ہے جس کا شور سُن کر پہلے تو ہم خود جاگیں اور کھڑے ہوں گے اس کے بعد رفتہ رفتہ پورا کراچی آنکھیں ملتا ہوا خواب سے بیدار ہوگا اور اس کے بعد انگڑائیاں لیتا ہوا اور کچی نیند سے جگائے جانے پر ہمیں بد دعائیں دیتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوگا۔ آپ اگلے روز کراچی سے اپنا معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
عکسِ غزل
یہ فیصل آباد کے معروف اور سینئر شاعر نصرت صدیقی کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ انتساب زمانے بنانے والے کے نام ہے۔ پسِ سرورق تحریر خاکسار کی ہے جو ایک کالم سے اخذ کی گئی ہے۔ اندرونِ سرورق تحسینی رائے دینے والوں میں احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، انیس امروہی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر عاصی کرنالی اور منو بھائی شامل ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے مطابق: دورِ حاضر کی غزل میں بہ اخفا اور ظاہر‘ دونوں کے بارے میں بے خوفی سے سچ بولنے کا رجحان نمایاں ہو رہا ہے، نصرت صدیقی انہی سچ بولنے والے نوجوان غزل گو شعراء میں سے ایک ہے۔
نمونۂ کلام کے طور پر چند اشعار:
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے
٭......٭......٭
قائم ہے بادشاہی زمانے میں آج بھی
کوئی کسی کا کوئی کسی کا غلام ہے
یہ خوبصورت غزلیں دیگر شعراء کی زمینوں میں کہی گئی ہیں۔
اور‘ اب آخرمیں اس ہفتے کی تازہ غزل
چہرہ اُس کا تیز غصے سے لہو ہوتے ہوئے
امتحانِ عشق میں وہ سرخرو ہوتے ہوئے
منزلِ مقصود میری اتنی آساں بھی نہ تھی
تیرے در تک آ گیا ہوں کوبکو ہوتے ہوئے
گوش بر آواز تھا وہ یا کہ تھا پنبہ بگوش
کہہ گیا ہوں بات ساری گومگو ہوتے ہوئے
وہ بھی ناموجود اور پھر غیر حاضر میں بھی تھا
اور سب کچھ ہو رہا تھا دُو بدو ہوتے ہوئے
رنگ و رامش بھی وہی تھے اور نقشِ ناز بھی
پھر بھی کوئی اور تھا وہ ہو بہو ہوتے ہوئے
ساری دنیا جیسے غیر آباد تھی چاروں طرف
دل بھی خالی تھا سراسر آرزو ہوتے ہوئے
تُو نہ مل پایا وگرنہ تو خدا کو بھی کہیں
ڈھونڈ ہی لیتے ہم اتنی جستجو ہوتے ہوئے
بات یہ اپنی سمجھ میں آ نہ پائی تھی کہ تھا
دوستی کا رنگ بھی اُس میں عدو ہوتے ہوئے
ہو نہ پائی تھی ظفرؔ ہم سے نمازِ عشق ادا
رائیگاں پھرتے رہے ہیں باوضو ہوتے ہوئے
آج کا مطلع
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے آدھا بھول گیا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں