وزیراعظم کے خوف سے اپوزیشن
متحد ہو رہی ہے: شاہ محمود قریشی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کے خوف سے اپوزیشن متحد ہو رہی ہے'' بالکل اسی طرح جیسے ہم اپوزیشن کے خوف سے متحد ہو رہے ہیں اور اپنے اتحادیوں کو مزید متحد کر رہے ہیں اور یہ کہ ایک دوسرے سے خوف بیحد ضروری ہے کیونکہ اسی سے جمہوریت کی گاڑی اپنی صحیح رفتار سے چلتی ہے اور اسی طرح ہمیں ان اتحادیوں اور اپنے ارکان سے رابطہ کرنے کا موقع مل رہا ہے جنہیں ہم کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے؛ تاہم اب دونوں طرف کا خوف کسی حد تک کم ہو رہا ہے لیکن صورتِ حال اب بھی غیر یقینی ہے اس لیے خوف کبھی کم ہوتا ہے اور کبھی زیادہ۔ آپ اگلے روز ٹنڈو محمد خاں میں ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
عوامی طاقت دیکھ کر سلیکٹڈ کی ٹانگیں کانپ
رہی ہیں: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عوامی طاقت دیکھ کر سلیکٹڈ کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں‘‘ اور لگتا ہے کہ ہماری ان سے زیادہ کانپ رہی ہیں کیونکہ مارچ میں کارکن تو برائے نام ہی ہیں اور اکثریت عوام کی ہے جنہیں گھروں سے نکالنے پہ کافی خرچہ اُٹھ گیا ہے حالانکہ عوام کو عوام ہی رہنا چاہیے اور ایسے موقعوں پر خواص نہیں بن جانا چاہیے جبکہ اس مارچ کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلنا اور تحریک عدم اعتماد کی صورت حال بھی خاصی مخدوش دکھائی دیتی ہے لیکن کوئی بات نہیں‘ آج کچھ لگائیں گے تو کل کچھ کمانے کے قابل ہو سکیں گے جبکہ اصولِ تجارت بھی یہی ہے اور یہی سرمایہ کاری ہے‘ جو ڈوب بھی سکتی ہے اس لیے ٹانگیں اگر کانپیں گی نہیں تو اور کیا کریں گی۔ آپ اگلے روز خانیوال، میاں چنوں اور چیچہ وطنی میں مارچ کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔
تحریک عدم اعتماد ابھی بہت دور ہے: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''تحریک عدم اعتماد ابھی بہت دور ہے‘‘ جبکہ سپیکر کے تعاون سے اسے مزید دور بھی کیا جا سکتا ہے حالانکہ اس کی قسمت میں ناکام ہونا ہی لکھا ہے اور خاصے جلی حروف میں لکھا ہے جو دور سے نظر بھی آتا ہے، اس لیے اپوزیشن کو چاہیے کہ تحریک کو اتنا بڑا کر لے کہ یہ دور سے نظر بھی آ جائے کیونکہ ہمیں اسے دیکھنے کے لیے دور بینوں کا انتظام کرنا پڑ گیا ہے حالانکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ یہ ہمیں خواب میں آ کر سخت تنگ کر رہی ہے لہٰذا ٹوٹکوں کے ساتھ ساتھ پارٹی کے بزرگ رہنماؤں سے اس کے لیے دعاؤں اور بد دُعاؤں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے ۔ خدا سب بھلی کرے گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
آتے دنوں میں گم (نظمیں)
یہ نظم کے منفرد شاعر ڈاکٹر زاہد منیر عامرکا مجموعۂ کلام ہے۔ انتساب آتے دنوں کے نام ہے۔ دیباچہ نگاروں میں ڈاکٹر خورشید رضوی اور امجد اسلام امجد ہیں جبکہ پیش لفظ عرضِ شاعر کے عنوان سے مصنف کا قلمی ہے۔ پسِ سرورق افتخار عارف کے قلم سے ہے جن کے مطابق: نامور محقق‘ ممتاز ادیب‘ صاحبِ اسلوب نثر نگار اور عالمی سطح کے مشہور و معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا شعری مجموعہ ''آتے دنوں میں گم‘‘ کے عنوان سے جہانِ علم و ادب سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کے لیے ایک خوش کن خبر ہے۔ صاحبِ دل تخلیق کار کی جانب سے یہ نظمیہ پیشکش کچھ رومانوی‘ جذباتی اور محبت کی واردات کے بیان کی نظمیں ہیں اور کچھ دل کے قریب رشتوں اور جذبوں کی دلآویز یادوں کا احوال بھی۔
نمونۂ کلام کے طور پر یہ نظم بعنوان ''یہی پرواز ہے جس کا مجھے ڈر ہے‘‘
''نہیں... یہ بدگمانی کب ہے
یہ سچ ہے‘ حقیقت ہے
اگر تم ہو تو باقی آدمیت ہے
تمہارے دم قدم سے رت جگے روشن
تمہارے لفظ کی مہکار سے مہکا مرا آنگن
ذرا دیکھو کسی بام تمنا پر کوئی پرچم
ابھی ابھرا، ابھی بل کھا کے لہرانے لگا ہے‘‘
یہی پرواز ہے جس کا مجھے ڈر ہے
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں
کون سے دیس کی بابت پوچھے
وقت کے دشت میں پھرتی
یہ خنک سرد ہوا
کن زمانوں کی یہ مدفون مہک
بدنما شہر کی گلیوں میں اڑی پھرتی ہے
اور یہ دور تلک پھیلی ہوئی نیند
اور خواب سے بوجھل بوجھل
اعتبار اور یقیں کی منزل
جس کی تائید میں ہر شے ہے‘ بقا ہے
لیکن اپنے منظر کے اندھیروں سے پرے
ہم خنک سرد ہوا سن بھی سکیں
ہم کہ کس دیس کی پہچان میں ہیں
ہم کہ کس لمس کی تائید میں ہیں
ہم کہ کس زعم کی توفیق میں ہیں
ہم کہ اک ضبطِ مسلسل
ہیں زمانوں کے ابد سے لرزاں
وہم کے گھر کے مکیں
اپنے ہی دیس میں
پردیس لیے پھرتے ہیں
ہم کہ اک بھیس لیے پھرتے ہیں
آج کا مطلع
رخِ زیبا ادھر نہیں کرتا
چاہتا ہے مگر نہیں کرتا