"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور تازہ غزل

سندھ ہاؤس میں ارکان اسمبلی یرغمال
نہیں، محفوظ ہیں: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''سندھ ہاؤس میں ارکان اسمبلی یرغمال نہیں، محفوظ ہیں‘‘ کیونکہ جن پر اتنی سرمایہ کاری ہو چکی ہو انہیں غیر محفوظ کس طرح کیا جا سکتا ہے جبکہ ہم کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے اور اگر کبھی ایسا ہو بھی جائے تو ہم اس میں سے بھی اپنا نفع نکال لیا کرتے ہیں، اس لئے ایسے قیمتی ارکان اسمبلی کو حکومت کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جبکہ وہ خود بھی زیادہ محفوظ ہونا چاہتے ہیں تاکہ جس کام کے لیے اتنی زحمت اٹھائی گئی ہے اسے نہایت صدق دل کے ساتھ انجام تک پہنچایا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان اپوزیشن کے سامنے تنہا
ڈٹ کر کھڑے ہیں: ہمایوں اختر
سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما ہمایوں اختر نے کہا ہے کہ ''عمران خان اپوزیشن کے سامنے تنہا ڈٹ کر کھڑے ہیں‘‘ اور انہیں تنہا ہونے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑی ہے، مثلاً روٹھنے والے ارکان اسمبلی کو منانے کے بجائے انہیں طرح طرح کی دھمکیاں دی گئی ہیں جبکہ قدرت کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتی اس لئے وہ اپنی کوشش میں مکمل طور پر کامیاب ہیں اور اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن کے سامنے تنہا ڈٹ کر کھڑے ہیں کیونکہ ناراض ارکان کو وہ دور کر چکے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومتی ارکان نے ضمیر کی آواز پر
اپوزیشن کا رخ کیا: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکومتی ارکان نے ضمیر کی آواز پر اپوزیشن کا رُخ کیا‘‘ اور ظاہر ہے کہ یہ ان کے سیاسی ضمیر کی آواز تھی ورنہ ان کے اپنے ضمیر نے تو انہیں بہت کہا کہ جس پارٹی کے ذریعے یہ طاقت حاصل کی ہے اسے اُسی کے خلاف استعمال کر رہے ہو اور اگرایسا کرنا تھا تو اُسی پارٹی کی دی ہوئی رکنیت سے استعفیٰ دے کراپوزیشن کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کرایسا کرو لیکن چونکہ ان کا ضمیر کمزور تھا اس لئے ان کا سیاسی ضمیر ان پر غالب آ گیا ؎
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ
آسان نہیں: طارق بشیر چیمہ
(ق) لیگ کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ''حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ آسان نہیں‘‘ کیونکہ جب تک وزارت اعلیٰ پنجاب کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا اور جب تک سٹیک ہولڈرز یکسو نہیں ہو جاتے اس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا جبکہ نواز لیگ کو ہماری اور ہمیں نواز لیگ کی نیکیاں بھی بہت اچھی طرح سے یاد ہیں اور نواز لیگ کا حافظہ بھی کچھ اتنا کمزور نہیں ہے اس لئے یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اُٹھانا پڑے گا اگرچہ بہت زیادہ سوچ بھی کام خراب کر دیتی ہے اس لئے ہم اس ضمن میں واجبی سوچ سمجھ ہی کو بروئے کار لا رہے ہیں،ہمارا انجام بخیر ہو، آمین ثم آمین۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
اک حرف کہ جیم کہیں جسے
یہ شاہد رضوان کے انشائیوں کا مجموعہ ہے جسے لاہور سے شائع کیا گیا ہے، یہ انگریزی کی صنف Essayہی کی ایک شکل ہے، ڈاکٹر وزیر آغا کو کئی ادیب جس کے موجد ہونے کا دعویٰ کرتے رہے جبکہ امجد اسلام امجد نے اسے گُم ہیضہ سے تعبیر کیا تھا، اور اسے وزیر آغا کی یاد میں لکھا گیا ہے۔ مختصر دیباچہ ڈاکٹر عبدالعزیز ملک نے تحریر کیا ہے جبکہ پسِ سرورق تحریر شاہد شیدائی کے قلم سے ہے، مصنف کی تصویر کے ساتھ ‘ جس کے مطابق شاہد رضوان کی سوچ، احساس اور فکر نے ان کی تحریروں کو چاشنی بخشی ہے۔ اندرون ِسرورق اکرام الحق سرشار کی تحسینی رائے ہے جنہوں نے مصنف کے قلم کی پختگی، شگفتگی اور تازہ پن کا اظہار کیا ہے، کتاب میں کل بائیس تحریریں ہیں جنہیں انشائیہ، مضامین اور طنزیہ میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی آپ تینوں کا الگ الگ مزہ لے سکتے ہیں۔
اور، اب اس ہفتے کی تازہ غزل:
جہاں چاہیں وہیں گزرتی ہے
عمر پھر بھی نہیں گزرتی ہے
گھومتا ہے یہ آسمان کبھی
کبھی سر سے زمیں گزرتی ہے
ہے اسی پر گزر بسر اپنی
جو بھی اپنے تئیں گزرتی ہے
کچھ گزرتی ہے قبل از یں جیسے
اور کچھ بعد ازیں گزرتی ہے
چھوڑ جاتی ہے کچھ نہ کچھ اپنا
دل سے جو نازنیں گزرتی ہے
اُس کے در سے کہیں نہیں جاتے
اب تو اپنی یہیں گزرتی ہے
اختیار اپنا اور کیا ہو گا
اُس کے زیر نگیں گزرتی ہے
دن گزرتا ہے اب کہیں اپنا
رات اپنی کہیں گزرتی ہے
جس طرح بھی گزر رہی ہے ظفرؔ
اب تو چیں بر جبیں گزرتی ہے
آج کا مقطع
سینہ ہے اور سانس کی تلوار ہے ظفرؔ
اس معرکے میں فرصتِ عرضِ ہنر کسے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں