حکومت کے پاس بھی اپوزیشن
کے کچھ بندے ہیں: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ہمارے پاس بھی حکومت کے کچھ بندے ہیں‘‘ جنہیں ہم نے کوئی لالچ نہیں دیا بلکہ وہ محض حصولِ ثواب کی خاطر ، ضمیر کی آواز پر ہماری مدد کریں گے کیونکہ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی کوشش میں ہے اس لئے انہیں ہم نے نیکی کا یہ راستہ فراہم کر کے خود بھی ایک نیکی ہی کمائی ہے، اگرچہ ہماری نیکیاں پہلے بھی کچھ کم نہیں تھیں بلکہ کچھ اضافی نیکیاں بھی ہم سے سرزد ہو گئی ہیں جن سے دوسروں کو فیض یاب کرنا ضروری تھا اور قدرت نے جس کے لیے یہ سنہری موقع ہمیںفراہم کیا ہے، سو ہمیں اور اپوزیشن، دونوں کو یہ نیکیاں مبارک ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
مذاکرات اب وزیراعظم یا وفاقی
ٹیم سے ہوں گے: ترین گروپ
پاکستان تحریک انصاف کے ناراض، ترین گروپ کے اہم رہنما عون چودھری نے کہا ہے کہ ''مذاکرات اب وزیراعظم یا وفاقی ٹیم سے ہوں گے‘‘ کیونکہ وہی تحفظات دور اور مطالبات منظور کر سکتے ہیں اور جن کے منظور ہوتے ہی ہمارا احتجاج بھی ختم ہو جائے گا اور ہم اپنی پارٹی ہی میں رہ کر کام کریں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ بات وفاقی وزرا کے بس میں بھی نہ رہے اور بالآخر قرعۂ فال وزیراعظم ہی کے نام کا پڑ جائے، اس لئے بہتر ہے کہ وفاقی ٹیم کو زحمت نہ ہی دی جائے اور براہ راست وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا جائے جبکہ ان کے ہاتھ میں ترپ کا پتا بھی ہم ہی ہیں، چشمِ بددور۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کل تک ایک دوسرے کو چورکہنے والے مفادات کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کل تک ایک دوسرے کو چورکہنے والے مفادات کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں‘‘ اور نہ صرف انہوں نے ایک دوسرے کو چور کہا بلکہ ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی درج کروا ئے جنہیں وہ آج تک بھگت رہے ہیں، اور میں چونکہ خود بھی اپوزیشن میں ہوں اس لئے مجھے یہ بات کہنی تو نہیں چاہئے لیکن حق بات کہنے سے رہا بھی نہیں جاتا، نیز ان کا ساتھ دیا بھی تو آخر ہمارے ہاتھ کیا آئے گا، نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اگلے انتخابات کے دوران پھر ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو کہا اور پیٹ پھاڑنے اور چوراہوں میں گھسیٹنے کی دھمکیاں بھی دیں تو ہمارا اس میں کیا فائدہ ہوسکتاہے؟اس لیے ہم اس جھگڑے سے دور ہی بھلے ہیں۔ آپ اگلے روز ثمر باغ دیر میں کارکنوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
بنی گالا میںچکن جلایا جاتا ہے: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بنی گالا میں منوں چکن جلایا جاتا ہے‘‘ اور اب عوام کو چکن مہنگا ہونے کی وجہ سمجھ میں آ گئی ہوگی جبکہ ہم اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اشیائے صرف کی قیمتیں روز بروز کیوں مہنگی ہوتی جاتی ہیں،تاکہ اس کمر توڑ مہنگائی کا راز فاش کر سکیں، اس کے علاوہ لگتا ہے کہ حکومت نے عوام کے ساتھ اپوزیشن کو بھی اس اشیائے خورو نوش کی مہنگائی سے اس حالت کو پہنچایا ہے اور خطرہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہو گا، اس لیے ہم عدم اعتماد کی تحریک کے لیے سب مل کر پوری کوشش کررہے ہیں اگرچہ اس میں کامیابی کے امکانات ابھی نظر نہیں آتے، سیاست تاش کی گیم نہیں ہے پھر بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ترپ کا پتّا بھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک ٹی وی انٹرویو دے رہے تھے۔
عمران خان جتنے مرضی ہاتھ پاؤں مار لیں
ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان جتنے مرضی ہاتھ پاؤں مار لیں، ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا‘‘ کیونکہ اگر ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آنا تو عمران خان کے ہاتھ کیا آ سکتا ہے، ماسوائے اس نااہل حکومت کے، جو ان کے پاس پہلے ہی موجود ہے اور جس کے خلاف ہم اپنی جدوجہد کسی نہ کسی طرح جاری رکھیں گے، اور یہ کام تا قیامت جاری و ساری رہے گا، اس لئے ہمیں شدت سے انتظار ہے کہ ہم اس کارِ خیر کو کامیابی سے ہمکنار کر کے سرخرو ہوں، جبکہ ایک منتخب حکومت کو چین سے بیٹھنے نہ دینے سے بڑھ کر نیک کام اور کیا ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
عمر جیسی بھی گزری گزار آئے ہیں
آخری بار تجھ کو پکار آئے ہیں
جو رُلاتا بھی تھا اور ہنساتا بھی تھا
بوجھ تھا کوئی، سر سے اُتار آئے ہیں
اپنی پہچان میں ہی نہیں آ رہی
وہ جگہ ہم جہاں بار بار آئے ہیں
ہیں کھڑے اب بھی اپنے کنارے پہ ہم
اپنی جانب سے دریا کے پار آئے ہیں
ظلم تیرا تو ہم سے نہ جھیلا گیا
اور تری مہربانی سہار آئے ہیں
تیرا ملنا نہ ملنا برابر ہے اب
ہم کچھ اس طرح سے من کو مار آئے ہیں
کام اپنا ہمیشہ ہی کی طرح پھر
کچھ بگاڑ آئے ہیں، کچھ سنوار آئے ہیں
خاک اپنی تو پیچھے کہیں رہ گئی
ساتھ لے کر جو اپنا غبار آئے ہیں
جس جگہ سے نکالا گیا تھا، ظفرـؔ
پھر وہیں بن کے امیدوار آئے ہیں
آج کا مقطع
سُو بہ سُو سایہ ٔ شہرت ہے، ظفر
کاٹ کر یہ بھی شجر دیکھنا ہے