سیاستدان عمران خان کے انجام
سے سبق سیکھیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''سیاستدان عمران خان کے انجام سے سبق سیکھیں‘‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملکِ عزیز میں سبق سیکھنے کا رواج ہی ختم ہو گیا ہے ورنہ والد صاحب سے ہی سبق سیکھا جا سکتا تھا جو وطن سے دور اور دیارِ غیر میں پناہ لے کر اپنے دن پورے کر رہے ہیں جنہیں مخالفین نے یہاں ٹکنے ہی نہیں دیا اور اب کہیں جا کر ان کی واپسی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں، اگرچہ وہ بڑے بھاری دل سے ہی واپس آئیں گے کیونکہ ان کی دلی تمنا تھی کہ اگلے وزیراعظم کا حلف میں اٹھاؤں لیکن دوسرے لوگ راہ میں حائل ہو گئے اور ان کی ساری تمناؤں پر پانی پھر گیا۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کر رہی تھیں۔
پیسوں کے دو چار ٹرک وزیراعظم مجھے دے
دیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''پیسوں کے دو چار ٹرک وزیراعظم اگر مجھے دے دیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی‘‘ اگرچہ خود تو ان کے پاس خالی ٹرک بھی نہیں تھے اور ان کی مبینہ اے ٹی مشینیں بھی کام چھوڑ گئی تھیں لیکن اتنے پیسوں کا انتظام تو بزدار صاحب بھی کروا سکتے تھے جبکہ ہم ضمیروں کی خریداری کے حق میں ہرگز نہیں ہیں البتہ کم از کم ان پیسوں سے خریدے گئے ضمیروں کی واپسی ضرور ہو سکتی تھی، اس کے علاوہ جو بچے کھچے لوگ ان کے ساتھ رہ گئے تھے یہ کام تو وہ بھی بڑی آسانی سے کر سکتے تھے۔ آپ اگلے روز الیکٹرانک پاسپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان قومی ایشوز پر بھی اپوزیشن
سے ملنا پسند نہیں کرتے: طلال چودھری
مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ ''عمران قومی ایشوز پر بھی اپوزیشن سے ملنا پسند نہیں کرتے‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں کرپٹ لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا حالانکہ کرپشن کوئی ہاتھ پر تھوڑی لگی ہوتی ہے جبکہ ہر کوئی صابن سے ہاتھ مل مل کر‘ دھو کر ہی گھر سے باہر نکلتا ہے بلکہ کورونا کی وجہ سے تو کئی کئی بار ہاتھ دھونا پڑتے ہیں، نیز کرپشن خود تھوڑے کی جاتی ہے بلکہ مختلف سطحوں پر ہنر مند کارندے کام کر رہے ہوتے ہیں اور کرپشن کے پیسے کو تو سیاستدان چھوتے تک نہیں ہیں اس لیے ان کے یہ خدشات بالکل بے جا ہیں اور وہ جب چاہیں اپوزیشن سیاستدانوں سے ہاتھ ملا سکتے ہیں، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
ملک میں ایمرجنسی نافذ کیے جانے
کا کوئی امکان نہیں ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''ملک میں ایمرجنسی نافذ کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘ کیونکہ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، ایمرجنسی لگانے کا خیال کیسے آ سکتا ہے؛ تاہم اگر ضرورت پڑی تو سوچا جا سکتا ہے کیونکہ ایمرجنسی لگانے ہی کے لیے ہوتی ہے جبکہ ویسے بھی‘ جو کام کرنا ہو، احتیاطاً اس کی تردید پہلے سے کر دی جاتی ہے اور اگرا یسا ہو گیا تو وہ بھی وزیراعظم کے سرپرائز میں سے ایک سرپرائز ہی ہوگا جبکہ ویسے بھی اپنے پورے سرپرائز انہوں نے ابھی تک نہیں دیے اور اپنے پتے بھی ابھی تک شو نہیں کیے؛ تاہم جو بھی ہوگا‘ ملک کی بہتری کے لیے ہوگا اور حکومت نے اب تک جو کام بھی کیے ہیں‘ اپنی طرف سے وہ ملک کی بہتری ہی کے لیے کیے ہیں، ان کا نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلا ہو۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
ایم کیو ایم بازاری پارٹی بن گئی ہے
پیسہ دو اوراستعمال کرو: مصطفی کمال
کراچی کے سابق میئر اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ''ایم کیو ایم بازاری پارٹی بن گئی ہے، پیسہ دو اوراستعمال کرو‘‘ اگرچہ اس تک رسائی کے لیے بازار نہیں جانا پڑتا اور یہ نہ صرف اپنے گھروں میں دستیاب ہے بلکہ جہاں بلا لو‘ وہاں آ بھی جاتی ہے اور شایداس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ صرف ایم کیو ایم کیا‘ کوئی بھی پارٹی ہو‘ آخر یہ لوگ پیسے خرچ کر کے ہی اسمبلیوں تک پہنچے ہیں‘ نیز انہیں اگلے الیکشن کے لیے بھی پیسے درکار ہوں گے تو انہوں نے ضرورت ایجاد کی ماں ہے والا فارمولا استعمال کیا کیونکہ سیاست تو ان کے نزدیک ایک سیدھی سیدھی سرمایہ کاری ہے جبکہ ہر کاروبار میں سرمایہ منافع حاصل کرنے ہی کے لیے لگایا جاتا ہے جس میں کبھی نفع ہوتا ہے کبھی نقصان، اور کبھی حساب برابر بھی رہ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں حسین مجروح کی نظم:
موم بتی
زندگی موم بتی نہیں
جس کے دونوں سروں کو جلا کر
زمانے پہ تم آگہی
پُرکشش آگہی!
بانٹنے لگ پڑو
اور جگنو، ستارے، مہ و شمس
حیران ہوں سب
کہ یہ خاکی و خود نگر
کتنا نادان ہے
سیکھ لیتا عناصر سے
اور تجربے سے ہمارے
کہ دونوں سروں کو جلانے سے بھی
صرف بے فائدہ موت
ہی کا بھلا ہے
مگر آدمی- مانتا کب ہے
آج کا مقطع
ٹھیک ہے کوئی مدد کو نہیں پہنچا لیکن
یہ بھی سچ ہے کہ ظفرؔ ہم بھی پکارے نہیں تھے