مئی کے آخر ہفتے عوام کا سمندر
اسلام آباد آئے گا: عمران خان
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مئی کے آخر ہفتے عوام کا سمندر اسلام آباد آئے گا‘‘ اور اسلام آباد چونکہ اونچی جگہ پر ہے اس لیے اس کے ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں جبکہ لوگ اس میں مچھلیاں بھی پکڑ سکیں گے اور کوئی مگرمچھ یا شارک بھی اس میں نہیں ہوگی کیونکہ ان کی اکثریت حکومت میں آ چکی ہے اور اس میں اُتار چڑھائو بھی آتا رہے گا اور ایسے ایسے نظارے ہوں گے کہ لوگ کراچی کے سمندر کو بھول جائیں گے اور موجیں اس قدر زور دار ہوں گی کہ ہمارے کنٹینر کے بھی ڈوبنے کا خدشہ ہوگا اس لیے اس کے نیچے ٹائروں کی جگہ کشتیاں باندھی جائیں گی تاکہ وہ موجوں کے ساتھ ساتھ ادھر اُدھر ٹہلتا رہے؛ تاہم خدا کرے کہ موسم ٹھیک رہے کیونکہ کوئی طوفان بھی آ سکتا ہے۔ آپ اگلے روز بغیر پروٹوکول جی نائن مرکز کا دورہ کر رہے تھے۔
جہاں کام چھوڑا‘ اس کے بعد
پیش رفت نہ ہو سکی: خواجہ سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''جہاں کام چھوڑا اس کے بعد پیش رفت نہ ہو سکی‘‘ حتیٰ کہ چین سے ایک بھی ناقص انجن نہیں خریدا جا سکا حالانکہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کا عہد کر چکے ہیں، اس لیے اختتام سے آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے ان انجنوں کی خریداری شروع کی جائے گی جس کے لیے مذاکرات شروع کر دیے گئے ہیں؛ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب چین میں ویسے ناقص انجن موجود ہی نہ ہوں؛ تاہم ان سے درخواست کی جائے گی کہ ہماری خاطر ایسے انجن مطلوبہ تعداد میں تیار کر دیے جائیں تاکہ دونوں ملکوں میں اقتصادی تعاون کا ایک نیا باب کھولا جا سکے۔ آپ اگلے روز ریلوے کے منصوبوں پر مختلف اجلاسوں سے خطاب کر رہے تھے۔
کچھ دنوں کی بات ہے‘ خبر کچھ اور ہوگی: پرویز الٰہی
سپیکر پنجاب اسمبلی اور مسلم لیگ قاف کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''کچھ دنوں کی بات ہے‘ خبر کچھ اور ہوگی‘‘ البتہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خبر کیا ہوگی لیکن چونکہ ہر روز نئی نئی خبریں آتی رہتی ہیں اس لیے یہ کوئی بھی خبر ہو سکتی ہے جبکہ خبروں کے آنے پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے کیونکہ میری طرف سے بعض نون لیگیوں کے خلاف مقدمے کی درخواست عدالت نے مسترد کردی ہے اور وہ خبر اب پرانی بھی ہو چکی ہے جیسے کہ میرا بازو ٹوٹنے کی خبر پرانی ہو چکی ہے‘ اس لیے وہ ہمارے لیے بھی کوئی بڑی خبر ہو سکتی ہے جبکہ ہمیں تو صرف حمزہ شہباز کے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کی خبر ہی کا انتظار ہے۔ آپ اگلے روز لاہور کے ارکانِ اسمبلی کے مشاورتی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ترقی کا سفر دوبارہ شروع کریں گے: قمر زمان کائرہ
وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر، گلگت و بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''ترقی کا سفر دوبارہ شروع کریں گے‘‘ اگرچہ ملکی خزانے کی حالت بہت پتلی ہے اور ترقی کا سفر دوبارہ شروع کرنا خاصا مشکل نظر آ رہا ہے لیکن زرداری صاحب دبئی جاتے ہوئے کچھ صدری نسخے بتا گئے ہیں جن سے ترقی کا سفر مناسب انداز میں دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہمارے لیے سیاسی رہنما وہی ہیں اور ہر طرح کا پلان تیار کرنے کا کام ہم نے اُن کے ذمے لگا رکھا ہے جو زیب بھی انہی کو دیتا ہے، اس لیے ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقی کا یہ سفر دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لالہ موسیٰ آمد پر استقبال کرنے والوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستان بحران کے دہانے
پر کھڑا ہے: فواد چودھری
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد احمد چودھری نے کہا ہے کہ ''پاکستان ایک بحران کے دہانے پر کھڑا ہے‘‘ بعض شرپسند عناصر جس کا ذمہ دار ہمیں گردانتے ہیں حالانکہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، کوئی بحران پیدا کرنے کے لیے نہیں کر رہے، البتہ اگر بحران خود ہی پیدا ہو رہا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے جبکہ بحران تو پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں کیونکہ ان کا کام ہی پیدا ہونا ہے توا س میں ہمارا کیا قصور ہے؛ تاہم ہم تو بحرانوں کو روکنے کے لیے یہ سارا کچھ کر رہے ہیں لیکن بحران پیدا ہونا ایک قدرتی چیز ہے اور ظاہر ہے کہ ہم قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے؛ البتہ ان کے خاتمے کے لیے کسی حد تک اقدامات اور کچھ ٹوٹکے وغیرہ کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ٹویٹر کے ذریعے بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رفیع رضا کی غزل:
رہا مسند سے اتارے چلے جانے کی طرح
یعنی جینا بھی وہ ہارے چلے جانے کی طرح
جانے والوں کو تو میں دیکھ رہا ہوں‘ لیکن
کون جاتا ہے تمہارے چلے جانے کی طرح
وہ مددگار ہی ایسے تھے کہ یہ کہنا پڑا
نہ بچاؤ مجھے مارے چلے جانے کی طرح
دل کی وسعت کوئی ایسی بھی نہیں قابلِ دید
آسماں سا ہے ستارے چلے جانے کی طرح
دوست احباب بھی اس تیز ہوا کے ہمراہ
چلے جاتے ہیں غبارے چلے جانے کی طرح
اب مری روحِ تمنا سے جو ملنا ہے تو مل
جامۂ خاک اُتارے چلے جانے کی طرح
آگ سی تھی کہ جو اشکوں نے لگا رکھی تھی
اب سکوں سا ہے شرارے چلے جانے کی طرح
نہیں اِس راہ میں رُکنے کی خطا‘ مت کرنا
زندگی ہے ہی گزارے چلے جانے کی طرح
آج کا مقطع
دل تو بھرپور سمندر ہے ظفرؔ کیا کیجے
دو گھڑی بیٹھ کے رونے سے نبڑتا کیا ہے