شیر کی شادی
جنگل میں شیر کی شادی ہو رہی تھی، طنبو قناتیں لگ رہی تھیں‘ دیگیں چڑھی ہوئی تھی، مہمانوں کی آمد آمد تھی‘ خوب رونق لگی ہوئی تھی کہ ایک چوہا بھی ادھر اُدھر پھدکتا پھر رہا تھا، کبھی وہ طنبو قناتوں والوں کو جھاڑ پلاتا اور کبھی دیگوں والوں پر چڑھائی کر دیتا‘ آخر کسی نے اُس سے پوچھا: شادی تو شیر کی ہو رہی ہے‘ تمہارا یہاں کیا کام ہے؟
تو وہ بولا: شادی سے پہلے میں بھی شیر ہوا کرتا تھا!
چوہے کے بھاگوں...
کسی گاؤں میں رات کو کھانے سے جو کچھ بچتا تو وہ چھت سے لٹکے ہوئے چھینکے میں رکھ کر سو جاتے۔ صبح اٹھتے تو اس میں سے کوئی نہ کوئی چیز غائب ہوتی۔ وہ حیران ہوتے کہ چھ سات فٹ اونچے چھینکے میں سے کون چیزیں اٹھا لے جاتا ہے۔ آخر ایک رات انہوں نے پہرہ دیا۔ آدھی رات ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ ایک کونے سے بِل میں سے ایک چوہا نکلا، چھینکے کے نیچے آیا، چھلانگ لگائی، چھینکے میں سے روٹی اٹھالی اور لے کر بل میں دوبارہ جا گھسا۔ وہ لوگ چوہے کی چھلانگ پر حیران ہوئے، آخر ایک بزرگ نے کہا کہ اس کے بل کو کھودو، بل کھودا گیا تو اس میں سے روپوں کی بھری ہوئی ایک تھیلی دستیاب ہوئی جو انہوں نے نکال لی۔ دوسری رات انہوں نے پھر پہرہ دیا۔ آدھی رات کے قریب چوہا بل سے نکلا، چھینکے کے نیچے آیا اور چھلانگ لگانے کی کوشش کی لیکن بار بار کی کوشش کے باوجود وہ چند انچ سے زیادہ نہ اچھل سکا، جس پروہ بزرگ بولا: اب رہنے دو، جس چیز پر تم اُچھلا کرتے تھے وہ ہم نے نکال لی ہے!‘‘
مدہوش چوہا
ایک چوہا شراب کے کنستر میں گر پڑا۔ کچھ عرصے بعد اُسے نکالا گیا تو وہ دُم کے بل کھڑا ہو گیا اور بولا:
''کہاں ہے بلی؟‘‘
پانچ روپے کا نوٹ
چوہے نے بل میں سے سر نکالا تو بلی بھی منتظر بیٹھی تھی۔ اس نے چوہے کو پانچ روپے کا کڑکتا نوٹ دکھاتے ہوئے کہا:
''اگر اُس میں سے نکل کر دوسرے بل میں گھس جاؤ تو یہ نوٹ تمہارا!‘‘
نیا نوٹ دیکھ کر چوہے کے منہ میں پانی بھر آیا، تھوڑی ہی دیر اس نے سوچا اور بلی سے بولا:
''بی بی! فاصلہ کم ہے اور پیسے زیادہ، مجھے تو اس میں کچھ گڑ بڑ لگتی ہے اس لیے میری معذرت!
الحمرا
ماہنامہ ''الحمرا‘‘ کا شمارہ اپریل شائع ہو گیا ہے، اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ! مضمون نگاروں میں پروفیسر فتح محمد ملک، محمد اکرام چغتائی، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر اے بی اشرف، جمیل یوسف، مسلم شمیم، ڈاکٹر منور عثمانی، عذراعباس اور دیگران نمایاں ہیں۔ آپ بیتی اور متفرقات میں بشریٰ رحمن، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، رخشندہ نوید، اقتدار جاوید اور دیگران، افسانہ نگاروں میں فرید اللہ صدیقی اور دیگران، گوشۂ مزاح کے تخلیق کاروں میں ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی ، جمیل گشکوری، ممتاز راشد و دیگران، تبصرہ نگاروں میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، نسیم سحر و دیگران جبکہ نظم و غزل میں ستیہ پال آنند، قیصر نجفی، شوکت کاظمی، حسن عسکری کاظمی، ڈاکٹر جواز جعفری، رخشندہ نوید، مظفر بخاری اور دیگران جبکہ حصۂ غزل میں نذیر قیصر، جمیل یوسف، طالب انصاری، رستم نامی، کرشن کمار طور، آفتاب خان، ڈاکٹر سید قاسم جلالی، یہ خاکسار اور دیگران شامل ہیں۔
اور اب اسی شمارے میں شائع ہونے والی نذیر قیصر کی یہ خوبصورت غزل:
چوم کر صبح کا تارا میں نے
چاند سیڑھی سے اُتارا میں نے
نیند میں مجھ سے بچھڑنے والے
تجھ کو خوابوں میں پکارا میں نے
رات کے آخری دروازے پر
رکھ دیا آخری تارا میں نے
صبح اُتری کسی آیت کی طرح
پڑھ لیا پہلا سپارہ میں نے
آسمانوں کی طرف بھیج دیے
فاختہ اور غبارہ میں نے
خالی پیالے میں ہے چھلکایا ہوا
تیرے دریا کا کنارا میں نے
ہاتھ رکھ کر تری پیشانی پر
چھو لیا اپنا ستارا میں نے
یہی دُنیا ہے مری جنت بھی
یہیں آنا ہے دوبارہ میں نے
اپنے ماضی کے زرہ بکتر کو
بڑی مشکل سے اُتارا میں نے
اُس کے آنے میں تھی کچھ دیر ابھی
باغ میں وقت گزارا میں نے
آج کا مطلع
دن پر سوچ سلگتی ہے یا کبھی رات کے بارے میں
کوئی بات نکل آتی ہے کائنات کے بارے میں