نجی زندگی میں مداخلت اور کردار کشی
میں یقین نہیں رکھتی: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''میں نجی زندگی میں مداخلت اور کردار کشی میں یقین نہیں رکھتی‘‘ تاہم یقین کی صورت حال یہ ہے کہ آدمی یقین کسی اور بات پر رکھتا ہے اور کر کچھ اور رہا ہوتا ہے بلکہ کردار کشی کو کردار کُشی سمجھا ہی نہیں جاتا اور کردار کشی کی نوعیت اس قدر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے کہ وہ کردار کشی لگتی ہی نہیں ہے اور صرف سیاست کے زمرے میں آتی ہے، اس لیے کردار کو بذاتِ خود اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ اس کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکے کیونکہ سیاست میں یہ ہتھکنڈے ایک معمول کا معاملہ ہو کر رہ گئے ہیں اور سیاست کی خاطر ان کو چھوڑا بھی نہیں جا تا۔ آپ اگلے روز تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ سے جاری کردہ ایک وڈیو پر اپنے خیالات کا ٹویٹ کی صور ت میں اظہار کر رہی تھیں۔
ملک کی معیشت میں ٹھیک
کروں گا: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ملک کی معیشت میں ٹھیک کروں گا‘‘ بس مجھے ایک بار صدرِ مملکت بنانے کی دیر ہے، اس لیے اگر حکومت ملک کی معیشت ٹھیک کرنے میں واقعی کوئی دلچسپی رکھتی ہے تو مجھے صدر بنانے میں مزید لیت و لعل سے کام نہ لے اور میرے سابقہ تجربات سے فائدہ اٹھائے۔ میں اس بے ہنگم معیشت کو ایک مناسب سائز پر لاؤں گا اور یہ اتنی رہ جائے گی کہ ٹھیک ہوئے بغیر اس کے پاس کوئی چارئہ کار ہی نہیں رہے گا‘ آزمائش شرط ہے۔ آپ اگلے روز نواب شاہ میں عید ملن پارٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
لانگ مارچ خونیں ہو سکتا ہے‘ خدشہ
ہے کہیں اُلٹا ہی نہ پڑ جائے: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ خونیں ہو سکتا ہے‘ خدشہ ہے کہیں اُلٹا ہی نہ پڑ جائے‘‘ کیونکہ اگر یہ خونیں نہ ہوا تو بالکل بیکار ہوگا اور ہمارے گلے بھی پڑ سکتا ہے اس لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ جس سے تمام مقاصد حاصل ہو جائیں یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘ اس لیے ایسے بیان دیے جا رہے ہیں اور پورے تسلسل سے دیے جا رہے ہیں تاکہ سکیورٹی ادارے آگے بڑھ کر ہمیں لانگ مارچ ہی سے روک لیں اور حکومت ہمارے چند معصومانہ مطالبات مان لے تاکہ کسی نقصان سے بچا جا سکے کیونکہ ہم تو لانگ مارچ کی ضد پر آئے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز لال حویلی سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمارے خاندان میں اختلافات کی باتیں کرنے
والے منہ کی کھائیں گے: چودھری برادران
چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''ہمارے خاندان میں اختلافات کی باتیں کرنے والے منہ کی کھائیں گے‘‘ کیونکہ سیاسی اختلافات کو ہم اختلافات نہیں سمجھتے اور کچھ برخورداران کے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ بھی ہم نے اتفاقِ رائے ہی سے کیا تھا۔ اگرچہ وہ ہمارے متفق ہونے سے پہلے ہی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر چکے تھے؛ تاہم اسے بھی ہم جمہوری رویہ ہی سمجھتے ہیں جبکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ متفق ہونے کے علاوہ ہم دونوں کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا کیونکہ ایک دوسرے کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں؛ اگرچہ متحد ہونے کے بعد بھی ہماری سیاسی پوزیشن خاصی مخدوش ہو کر رہ گئی ہے۔ آپ اگلے روز گجرات میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
چھپا رہا کئی پردوں میں جب تمہارا جھوٹ
تو صاف پکڑا گیا کس لیے ہمارا جھوٹ
میں جھوٹ بولتا اور لوگ سچ سمجھتے رہے
اور‘ اب ہے سچ مرا اُن کی نظر میں سارا جھوٹ
کسی کو سچ کا کوئی اعتبار ہی نہ رہے
اب اس قدر تو نہیں بولیے خدارا جھوٹ
نہ جانے کس لیے ہم اعتبار کرتے رہے
یہ جانتے بھی تھے کہ آپ کا اشارہ جھوٹ
سُنا ہے آپ ہمیں یاد کرتے رہتے ہیں
تو اس سے ہو نہیں سکتا ہے کوئی پیارا جھوٹ
وہ سچ ہی لگنے لگا تھا تمام جب ہم نے
کچھ اس طرح سے کسی جھوٹ سے گزارا جھوٹ
کچھ اس طرح سے ہے دریائے خواب کا منظر
کہ سچ ہے پانی بھی پانی مگر کنارا جھوٹ
تمام رات ہمیں راستا دکھاتا رہا
یہ چمک رہا تھا کچھ اس طرح سے ستارہ جھوٹ
وہاں ظفرؔ‘ کسی دیوار کی ضرورت کیا
کہ دے رہا ہو اگر آپ کو سہارا جھوٹ
آج کا مقطع
دل میں کوئی چیز چمکتی بجھتی رہتی ہے جو ظفرؔ
فکر مند بھی رہتا ہوں میں اسی دھات کے بارے میں