کے پی کو کپڑے بیچ کر سستا آٹا
فراہم کروں گا: شہباز شریف
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''کے پی کو کپڑے بیچ کر سستا آٹا فراہم کروں گا‘‘ کیونکہ پہلے والے کپڑے ویسے بھی پرانے ہو چکے ہیں اور وزیراعظم پرانے کپڑے پہن بھی نہیں سکتا اور اس طرح نئے کپڑے سلوانے کاموقع بھی مل جائے گا اگرچہ جراثیم زدہ پرانے کپڑے خریدنے پر کوئی تیار نہیں ہوگا؛ تاہم انہیں ڈرائی کلین کر کے بیچا جا سکتا ہے؛ چنانچہ اس رقم سے جتنا بھی آٹا خریدا جا سکا‘ وہ کے پی کے عوام کے لیے حاضر کروں گا اور نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے معاملے پر پہلے ہی وہ اتنی بار تبدیل کر چکا ہوں کہ اور کوئی نام باقی ہی نہیں رہا؛ چنانچہ کے پی کے عوام میری اس عظیم قربانی کے لیے چشم براہ رہیں۔ آپ اگلے روز شانگلہ ہل کے علاقے میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان پر کبھی تنقید نہیں کی‘ پالیسی سے
اختلاف کا حق رکھتا ہوں: شاہد آفریدی
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے کہا ہے کہ ''عمران خان پر کبھی تنقید نہیں کی‘ پالیسی سے اختلاف کا حق رکھتا ہوں‘‘ اگرچہ میں نے ابھی کوئی سیاسی پارٹی تشکیل نہیں دی کیونکہ سیاسی پارٹیاں پہلے ہی ملک عزیز میں وافر مقدار میںموجود ہیں؛ چنانچہ اگر کسی پارٹی نے دعوت دی تو اس پر سنجیدگی سے غور کروں گا بلکہ میں اب تک جتنے سیاسی بیان دے چکا ہوں کسی پارٹی کی طرف سے مجھے آفر آ جانی چاہئے تھی کیونکہ اگر عمران خان کرکٹ کی کپتانی کے بعد ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہے تو اس کپتانی سے میں کیوں فائدہ نہیں اٹھا سکتا؛ چنانچہ اگر کسی پارٹی کو اپنے مستقبل کے وزیراعظم کی ضرورت ہو تو خاکسار کو آزما سکتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک وڈیو پیغام جاری کر رہے تھے۔
شہباز شریف عمران خان کی لائی ہوئی تباہی
کو ٹھیک کرنے میں جُتے ہوئے ہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف عمران خان کی لائی ہوئی تباہی کو ٹھیک کرنے میں جُتے ہوئے ہیں‘‘ اور اگر میں وزیراعظم ہوتی تو اب تک یہ تباہی درست کر چکی ہوتی لیکن میں نے صبر کا گھونٹ بھر لیا ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘ اور جو تباہی ہمارے دور میں آئی تھی عمران خان اسے ذرا بھی ٹھیک نہیں کر سکے تھے کیونکہ اصول بھی یہی ہے کہ تباہی لانے والا ہی تباہی کو ٹھیک بھی کر سکتا ہے اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ اگلی بار عمران خان اپنی لائی ہوئی تباہی کو خود ہی ٹھیک کریں گے، بس چند مہینوں ہی کی تو بات ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
رانا ثناء اللہ سے متعلق اپنے بیان
پر قائم ہوں: چودھری شیر علی
سابق رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ نواز کے رہنما چودھری شیر علی نے کہا ہے کہ ''رانا ثناء اللہ سے متعلق اپنے بیان پر قائم ہوں‘‘ لیکن وہ مقدمات قائم کرنے کے بجائے ان پر منشیات کا کیس بنا دیا گیا اور اگر ماڈل ٹاؤن والا واقعہ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ کیس مزید مضبوط ہو جاتے ہیں جن کا رانا صاحب نے حساب دینا ہے اور اس طرح کے بیانات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ہم دونوں کا تعلق ایک ہی شہر سے ہے جہاں سیٹ کے ٹکٹ کے معاملے پر دونوں میں لفظی جنگ جاری رہتی ہے اور یہ بیان دیا بھی اس لیے گیا ہے کہ پارٹی قیادت کی نظروں میں آ جائے‘ اور اگر قیادت نے نہیں دیکھا تو کوئی قیادت کو دکھا دے تاکہ کل کو ٹکٹ دینے کے حوالے سے اسے شش و پنج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
سویا ہوا انتظار جاگا
یہ ہمارے ممتاز اور سینئر شاعر صابر ظفر (تمغۂ امتیاز) کا چھیالیسواں مجموعۂ کلام ہے۔ انتساب ہمارے ایک اور شاعر دوست ''اندوختہ‘‘ اور دیگر مجموعوں کے خالق انور شعور کے نام ہے، حتیٰ کہ اس کے ناشر سلیم اشرف‘ جن کے ادارے کے تحت یہ کتاب چھپی ہے‘ خود بھی شاعر ہیں یعنی ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ کتاب کا کوئی دیباچہ نہیں ہے‘ شاید اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور یہ شعر درج ہے ؎
ایسا لگا جیسے یار جاگا
سویا ہوا انتظار جاگا
کتاب میں کل 58غزلیں شامل ہیں جو شاعر کے اپنے انداز کلام کی آئینہ دار ہیں۔
نمونۂ کلام کے طور پر اسی کتاب میں سے یہ غزل:
نہیں کہ ہم نے تکلم کی آرزو نہیں کی
مگر اُس آنکھ نے‘ اس لب نے گفتگو نہیں کی
ہمیں بھی زیب نہ دی خواہشوں کی عریانی
محبت اُس نے بھی دُنیا کے روبرو نہیں کی
ہمارا اُس کا تعلق تھا بندگی جیسا
جو کی تو اس سے ملاقات بے وضو نہیں کی
بجز نمائشِ عکس آئینے کی قسمت کیا
سو ہم نے ہونے کی تشہیر ہی کبھو نہیں کی
بدن کے زخم تو سب ہم نے بھر کے دیکھ لیے
مگر جو چاک ہوئی روح وہ رفو نہیں کی
میں اپنے آپ میں کھویا ہوا تو ہوں‘ پھر بھی
تری تلاش و طلب کب چہار سو نہیں کی
وہ مل گیا تو اُسی کو نصیب جان لیا
پھر اس کے بعد کسی کی بھی جستجو نہیں کی
ہزار پانی کے چھینٹے پڑے تھے ہم پہ، مگر
مکمل ایک بھی تصویر آب جُو نہیں کی
نہ راس شاید اُسے موسمِ وصال آیا
نہال دل نے اگر خواہشِ نمو نہیں کی
وہ آ گیا تھا کہ اس کو طلب زیادہ تھی
تلاش اس کی ظفرؔ ہم نے کُو بکو نہیں کی
آج کا مطلع
مرے نشان بہت ہیں جہاں بھی ہوتا ہوں
مگر دراصل وہیں بے نشاں بھی ہوتا ہوں