تحریک عدم اعتماد سے ایک رات پہلے وفاقی وزیر
نے فوری الیکشن یا مارشل لا کی دھمکی دی: بلاول بھٹو
وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ''تحریک عدم اعتماد سے ایک رات پہلے‘ ایک وفاقی وزیر نے فوری الیکشن یا مارشل لا کی دھمکی دی تھی‘‘ جبکہ یہ بات میں نے کسی کو نہیں بتائی کیونکہ اس سے ہمارے اُس پلان کی قدر و قیمت کم ہو جاتی جو ہم نے وزیراعظم اور حکومت کی رخصتی کے لیے بنایا تھا‘ اس کے بعد میں والد صاحب کو صدرِ مملکت بنانے کی کوششوں میں مصروف ہو گیا اور پھر وزیر خارجہ بننے کے بعد صرف خارجہ باتیں ہی یاد رہیں‘ داخلہ ساری باتیں ذہن سے محو ہوتی گئیں، حتیٰ کہ اب مجھے اس وزیر کا نام تک یاد نہیں ہے بلکہ اس کی شکل بھی بھول گیا ہوں ورنہ ضرور بتا دیتا، اور اس حیرت میں آج تک گم ہوں کہ ایک وفاقی وزیر بھی مارشل لا لگا سکتا ہے؛ تاہم جونہی مجھے ا س کا نام یاد آیا‘ میں قوم کو اس سے آگاہ کر دوں گا۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
نیب کے پاس میرے خلاف
کوئی ثبوت نہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نیب کے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں‘‘ اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ کوئی ثبوت ہو تو ملے۔ وائٹ کالر کرائم اپنے پیچھے کوئی ثبوت چھوڑتا ہی نہیں۔ ویسے بھی اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں جن کے کچھ اصلاحات کے بعد مزید تبدیل ہونے کی امید ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
الیکشن! ورنہ حالات ایسے خراب ہوں
گے کہ لوگ کانپ اٹھیں گے: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ
شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''الیکشن! ورنہ حالات ایسے خراب ہوں گے کہ لوگ کانپ اٹھیں گے‘‘ کیونکہ لیڈران سمیت ان کی ٹانگیں تو پہلے ہی کانپ رہی ہیں‘ جسم کے باقی اعضا بھی کانپنا شروع کر دیں گے جبکہ الیکشن کے بعد لوگ مزید بھی کانپنا شروع ہو سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے اور پوری قوم کے کپکپاہٹ میں مبتلا ہو جانے پر اسے کون بچا سکتا ہے؟ جبکہ ہمارے اس مرض میں مبتلا ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہے‘ اس لیے الیکشن ہوں یا نہ ہوں‘ آگے حالات زیادہ اچھے نظر نہیں آ رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) قانون کی
حکمرانی پر یقین رکھتی ہے: سینیٹر اعظم تارڑ
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ''مسلم لیگ (ن) قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے‘‘ اور جو کچھ ہم نے اپنے ادوار اقتدار میں کیا ہے اور جس کی زمانے بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے اور جس نے احتسابی اداروں وغیرہ تک کے اوسان خطا کر رکھے ہیں‘ وہ اسی سلسلے میں تھا جبکہ ہمارے قائدِ محترم بھی قانون کی حکمرانی کے تحت اُس بیماری کی بنا پر بیرونِ ملک گئے تھے جو وہاں پہنچتے ہی رفع دفع ہو گئی تھی اور اب عرصۂ دراز سے قانون کی حکمرانی ہی کے تحت واپسی کے وعدے کے باوجود وہ لندن میں رہ کر ملک کی خدمت کررہے ہیں اور اب قانون کی حکمرانی کے تحت لندن میں انہوں نے کابینہ کا اجلاس بلایا اور اسی کے تحت اب صدرِ مملکت کی تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ سزا معطل ہو اور وہ واپس آ سکیں۔ آپ اگلے روز وکلا کے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جب سے دونوں گئے ہیں اک دوسرے کے کام سے
میں بھی ہوں آرام سے‘ وہ بھی بہت آرام سے
جانتا بھی تھا کہ اب ہونا ہوانا کچھ نہیں
جانیے پھر کس لیے گھبرا رہا ہوں شام سے
پھر بھی ہونا تھا یہی چکرا کے ہم کو رکھ دیا
بس یہی تھا جو ملا ہے گردشِ ایّام سے
یہ محبت ہے بجائے خود کوئی حیرت کدہ
ہر سزا ہے جو یہاں کچھ کم نہیں انعام سے
اجتناب اب بھی وہی ہے‘ ناز اور انداز بھی
یہ بھی کیا کم ہے اتر آئے تو ہیں وہ بام سے
ورنہ پہلے تو مجھے بھی جانتا کوئی نہ تھا
ہو گیا ہوں میں بھی کچھ مشہور تیرے نام سے
کچھ نہ پوچھیے کوئی‘ کر بیٹھے ہیں کیا اِس عمر میں
خوش بھی ہیں اور تنگ بھی اس عشقِ بے ہنگام سے
بات یہ اپنی سمجھ میں بھی نہیں آئی کبھی
عمر کو پختہ کیا ہے جس خیالِ خام سے
راستے کچھ خاص بھی شاید نکالے ہوں‘ ظفرؔ
ہم نے یہ جیسی بھی ہے‘ اِس رہگزارِ عام سے
آج کا مقطع
پھر پچھلے پہر آئنہ اشک میں ظفرؔ
لرزاں رہی وہ سانولی صورت سویر تک