"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن، چٹکلا اور اوکاڑہ سے مسعود احمد

پی ٹی آئی والے مکھیاں مارنے اسلام آباد
جائیں گے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی والے مکھیاں مارنے اسلام آباد جائیں گے‘‘ کیونکہ اسلام آباد مکھیوں سے بھرا پڑا ہے، باقی ملک کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ اس لیے اسے ملک کے دوسرے حصوں سے مکھیوں کے خاتمے کا کام شروع کرنا چاہیے‘ لیکن اگر وہ حکومت کو مکھیاں سمجھ کر بھگانے آ رہے ہیں تو یہ بھی زیادتی ہے کیونکہ حکومت نہ تو کسی کی ناک پر بیٹھتی ہے اور نہ ہی کسی کی چائے میں گرتی ہے، بس عوام میں ادھر ادھر بھنبھناتی پھرتی ہے اور کسی کا کیا لیتی ہے؟ جبکہ ویسے بھی یہ تھوڑے ہی دنوں کی مہمان معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ اس بے ضرر مخلوق پر رحم کھائیں۔ آپ اگلے روز قبائلی جرگے اور تاجران سے خطاب کررہے تھے۔
حکومت کے آگے کھائی اور پیچھے
پی ٹی آئی ہے: فیاض چوہان
رہنما پاکستان تحریک انصاف اور سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''حکومت کے آگے کھائی اورپیچھے پی ٹی آئی ہے‘‘ اس لیے اسے 25 مئی کا بے چینی سے انتظار کرنا چاہیے جب ساری پی ٹی آئی اپنے لانگ مارچ میں مصروف ہو گی اور اس طرح اس کا کم از کم عقب تو خالی ہو جائے گا جس میں وہ اپنی موج مستیاں کر سکتی ہے جبکہ لانگ یعنی آزادی مارچ کا اصل مقصد بھی حکومت کو یہ سہولت بہم پہنچانا ہے تاکہ وہ آگے بڑھ کر کھائی میں گرنے سے بچ سکے اور اس کے لیے اسے پی ٹی آئی کا شکرگزار ہونا چاہیے اور دعا ہے کہ دونوں کے درمیان بھائی چارہ اور سیاسی ہم آہنگی اس طرح چلتی رہے اور دونوں کا کام بھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔
لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے دن
رات کوشاں ہیں: خرم دستگیر
وفاقی وزیر بجلی و پانی انجینئر خرم دستگیرنے کہا ہے کہ ''لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے دن رات کوشاں ہیں‘‘ اورسنگینی ختم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس لیے اب ہم نے سوچا ہے کہ اس کوشش کو ترک کر دیا جائے کہ کم از کم اس میں اضافے کو تو روکا جائے کیونکہ موجودہ سطح پر جو لوڈشیڈنگ ہے‘ اس کے تو لوگ ویسے بھی عادی ہو چکے ہیں جبکہ دور اندیش صارفین نے اپنے اے سی وغیرہ بیچنا شروع کر دیے ہیں کہ اگر انہوں نے چلنا ہی نہیں تو کھڑے کھڑے ویسے بھی برے لگیں گے جن کی جگہ خوبصورت کیلنڈر وغیرہ سجائے جا سکتے ہیں جو آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور پنکھوں کی جگہ دستی پنکھے کارآمد ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز گیپکو آفس میں افسران سے گفتگو کررہے تھے۔
ادریس بابر کا بھیجا ہوا چٹکلا
آج ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا‘ جہاں مجھ سے پہلے ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ ڈاکٹر نے ان سے صرف یہ پوچھا: جی بی بی! فرمائیں۔ خاتون کہنے لگیں: فرمانا کیاہے ڈاکٹر صاحب! دو دن سے ہلکا سا بخار محسوس ہو رہا ہے، بائیں بازو میں درد رہتا ہے، گردن کے پٹھے کھنچے رہتے ہیں ہاتھ اور پیر جلتے رہتے ہیں۔ گلے میں کانوں سے نیچے گلٹیاں سی بنی ہوئی ہیں۔ میں نے تو کل ہی آنا تھا آپ کے پاس مگر چھوٹی بیٹی کے ہاںبیٹا ہوا ہے‘ وہ کل سے آئی ہوئی ہے۔ مہمان آ جا رہے ہیں۔ کل رات اس کا شوہر بھی آ گیا۔ گھر میں تو ساگ پکا تھا مگر اس کے لیے مرغ تکے منگوائے تھے۔ پانچ سات بوٹیاں میں نے بھی چکھ لی تھیں۔ بس اس وقت سے گھبراہٹ سی ہو رہی ہے۔ ڈکار بھی آئے تھے مگر صبح صبح کچھ کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ صرف دو آلو والے پراٹھے کھائے تھے دہی کے ساتھ۔ میری بیٹی کا پہلا بچہ ہے نا! پتا ہے کتنا خرچہ ہو جاتا ہے ۔ خیر‘ کوئی نہیں! میری کمیٹی نکلی ہے ‘وہ ڈالی ہی اس لیے تھی۔ ابھی میں بیٹھ کر اٹھتی ہوں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا جاتاہے۔ چکر آنے لگتے ہیں۔ پھر میں بیٹھی ہی رہتی ہوں مگر سوچتی ہوں اس طرح بیٹھی رہی تو وزن ہی نہ بڑھنا شروع ہو جائے۔ وہ ہماری ہمسائی ہے نا خورشید! اس بیچاری سے تو ہلا بھی نہیں جاتا، اتنی موٹی ہو گئی ہے۔ کل کہہ رہی تھی کہ میں بیمار ہوں۔ میں نے اسے کہا تھا کہ آپ کے پاس آئے دوائی لینے۔ ڈاکٹر صاحب میری دائیں ٹانگ میں بھی درد ہوتا ہے‘ اس کے لیے بھی کوئی دوائی دے دینا... ڈاکٹر گم سم سا اسے دیکھتا رہا پھر وہ اٹھ کر دوائیوں والے کائونٹر کے پیچھے گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ ڈاکٹر نے پیچھے جا کر جلدی سے دو تین گولیاں خود کھائی ہیں۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے مسعود احمد کی غزل
اقرار کر رہے تو انکار کس لیے
ویسے ہی رات دن کی یہ تکرار کس لیے
اچھا نہیں لگا یہ ہنر توڑ پھوڑ کا
دروازہ توڑنا تھا تو دیوار کس لیے
آنا تھا گر یہیں پہ ہمیں موڑ کا ٹ کر
گزرے ہیں تیرے گھر سے کئی بار کس لیے
اک دوسرے سے پیچھا چھڑانے کی دوڑ میں
ایک دوسرے کا پیچھا لگاتار کس لیے
اعلان ہو رہا ہے وہاں میری جیت کا
تسلیم کر کے بیٹھا ہوں یہ ہار کس لیے
دنیا میں کوئی چیز نکمی نہیں اگر
سمجھا گیا ہے پھر ہمیں بے کار کس لیے
حل ہو رہا تھا مسئلہ دھیمے سروں میں بھی
پھر گفتگو یہ اتنی دھواں دھار کس لیے
مسعودؔ ساری بات ہے دو گز زمین کی
وہ ایکڑوں زمین تھی درکار کس لیے
آج کا مقطع
ظفرؔ ہم آپ کو گمراہ تو نہیں کہتے
یہی کہ ہیں بھی اگر راہ پر زیادہ نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں