زمینی حقائق بدلے ہوئے ہیں، لوگوں
کی آنکھوں میں خون ہے: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''زمینی حقائق بدلے ہوئے ہیں، لوگوں کی آنکھوں میں خون ہے‘‘ چنانچہ سب سے پہلے لوگوں کو اپنی آنکھوں کا خون صاف کروانا چاہئے کیونکہ آنکھوں میں خون ہو تو کچھ نظر ہی نہیں آتا اور لوگ اسلام آباد جانے کے بجائے فیصل آباد کی طرف بھی مڑ سکتے ہیں جس سے آزادی مارچ کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ فیصل آباد پہنچ کر تو گھنٹہ گھر کا ہی نظارہ کیا جا سکتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی کئی بار دیکھا ہوا ہے اور دیکھی ہوئی چیز کو دوبارہ دیکھنا تضیعِ اوقات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور جو قومیں وقت کی قدر نہیں کرتیں‘ وہ کسی لانگ مارچ کو کامیاب نہیں کرا سکتیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آپ کنپٹی پر بندوق رکھ کر بات
نہیں کر سکتے: احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''آپ کنپٹی پر بندوق رکھ کر بات نہیں کر سکتے‘‘ کیونکہ اگر جسم کے دوسرے حصوں پر بندوق رکھ کر بات ہو سکتی ہے تو کنپٹی پر رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور بندوق تو ویسے بھی بات چیت کے حوالے سے کوئی مثبت شے نہیں ہے اور نہ ہی اس سے بات چیت مثبت انداز میں ہو سکتی ہے، اور جہاں تک الیکشن کرانے کی بات ہے تو ہماری پارٹی کا ایک دھڑا پہلے ہی اس پر سوچ بچار کر رہا تھا مگر جب دھونس سے مطالبہ منوانے کی کوشش کی گئی تو سب اپنی اپنی ضد پر اڑ گئے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
عمران خان کا حکومت کے خاتمے کے لیے
امریکی سازش کا دعویٰ غلط ہے: بلاول بھٹو
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کا حکومت کے خاتمے کے لیے امریکی سازش کا دعویٰ غلط ہے‘‘ کیونکہ یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ یہ سازش کس نے اور کہاں تیار کی لیکن عمران خان سمیت کسی کو اس کا یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ سعادت بلاول ہاؤس کو حاصل ہوئی اور یہ سب لوگ والد صاحب کی سیاست سے بھی واقف نہیں ہیں اور اگر واقف ہیں بھی تو اسے تسلیم کرنے میں بخل سے کام لے رہے ہیں جبکہ یہ بلاول ہاؤس کے دیگر کرشمات سے بھی واقف نہیں ہیں لیکن امید ہے کہ رفتہ رفتہ ان سے بخوبی واقف ہو جائیں گے کیونکہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور کئی ایسے نازک مقامات آگے بھی آنے والے ہیں۔ آپ اگلے روز ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر گفتگو کر رہے تھے۔
پرانا پاکستان بدترین شکل میں
لانا ان کا ایجنڈا ہے: فواد چودھری
سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد احمد چودھری نے کہا ہے کہ ''پرانا پاکستان بدترین شکل میں لانا ان کا ایجنڈا ہے‘‘ حالانکہ وہ اس کی بدترین شکل ہی تھی جبکہ بدترین کو مزید بدترین کیسے کیا جا سکتا ہے حالانکہ وہ اسے دھو دھلا کر بہترین بھی بنا سکتے تھے؛ تاہم یہ کام ہمارے ہاتھوں ہی ہو گا اور ہم اسے کر کے بھی دکھائیں گے؛ اگرچہ پہلے کسی چیز کو بہترین شکل دینے سے قاصر رہے ہیں کیونکہ اس طرح کا سارا کام ہم نے اپنی اگلی باری پر چھوڑ رکھا تھا کیونکہ ہم اچھے مستقبل پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں‘ اگرچہ اگلی باری کا امکان روز بروز کم ہوتا چلا جا رہا ہے اور جس کے لیے ایک اور لانگ مارچ کرنا پڑے گا کیونکہ ہم ہمت والے ہیں اور گھبرانے والے نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں حکومت پر تنقید کر رہے تھے۔
یہ قصہ کیا ہے معنی کا
یہ ممتاز اور معتبر نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جسے لاہور سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب شناور اسحق کے نام ہے، پسِ سرورق مصنف کا تعارف اور ادبی خدمات کا مختصر جائزہ درج ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر اردو میںما بعد نوآبادیاتی مطالعات کے بنیاد گزار ہیں۔ ان کی تنقیدی کتب میں جدید اور مابعد جدید تنقید، لسانیات اور تنقید، متن، سیاق اور تناظرہیں جن میں ان کی ایوارڈ یافتہ کتابیں بھی شامل ہیں۔ افسانوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جس سے اس کی تنقیدی حیثیت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور جن میں فکشن، شاعری اور دیگر معاملات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ طرزِ تحریر اس قدر رواں ہے کہ ذہن پر کوئی بوجھ پڑے بغیر بات سمجھ میں آتی ہے حتیٰ کہ اسے فکشن کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ ادارہ اس کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد کا مستحق ہے۔ گیٹ اَپ عمدہ ہے اور صفحات کی تعداد 292 ۔
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل:
کیسا ہے یہ زوال‘ کمال آ نہیں رہا
ہے منتظر جواب‘ سوال آ نہیں رہا
اک برف سی جمی ہے رگوں کے نواح میں
مُدت ہوئی کسی میں اُبال آ نہیں رہا
مشکل پسند طبع کے اپنے ہیں سلسلے
آساں ہے دستیاب‘ محال آ نہیں رہا
ایک ایک کر کے لمحے گزرتے ہیں رات دن
جو عمر میں شمار ہو‘ سال آ نہیں رہا
چلتا ہے سب کااپنی ہی مرضی سے کاروبار
خوشیاں ہیں دور دور‘ ملال آ نہیں رہا
جوچیز آنی چاہئے‘ ہے راہ میں رُکی
سر کو ہے انتظار وبال آ نہیں رہا
گانا تو خیر چھوڑیئے‘ رونا نہیں نصیب
سُر بے سُرا ہے دیر سے‘ تال آ نہیں رہا
کیا خوبرو گزر رہے ہیں دائیں بائیں سے
وہ ہے جو آپ اپنی مثال‘ آ نہیں رہا
دریا کو چھوڑ کر کہیں جانے کو ہیں ظفرؔ
تنگ آ چکی ہیں مچھلیاں‘ جال آ نہیں رہا
آج کا مقطع
ظفرؔ زمیں زاد تھے زمیں سے ہی کام رکھا
جو آسمانی تھے آسمانوں میں رہ گئے ہیں