عمران خان سیاست کریں‘ حد
پار نہ کریں: شہباز شریف
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان سیاست کریں‘ حد پار نہ کریں‘‘ اگرچہ انہوں نے محض ایک خدشہ ظاہر کیا ہے اور اس طرح کے خدشے اور بھی کئی سیاستدان اور افراد متعدد بار ظاہر کر چکے ہیں جبکہ پہلے کبھی اس طرح کے بیان پر ایسی ہنگامہ آرائی دیکھنے میں نہیں آئی جو اس بار دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس کی ایک وجہ ان کی تمام پارٹیوں سے مخاصمت اور محاذ آرائی بھی ہے اور جہاں تک معاشی طور پر ملک کو مضبوط کرنے کی بات ہے تو ہم سے زیادہ کس کو اس کی فکر ہو سکتی ہے اور یہ جو گلشن کا کاروبار چل رہا ہے‘ یہ ملک کے معاشی استحکام ہی کی بدولت ہے کہ جس کے سبب حکومت کو بھرپور عوامی خدمت کا موقع ملتا ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان ٹویٹ کر رہے تھے۔
حکومت بیرونی ہدایات کے مطابق
مہنگائی کر رہی ہے: اسد قیصر
سابق سپیکر قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ ''حکومت بیرونی ہدایات کے مطابق مہنگائی کر رہی ہے‘‘ اور ہمارا اعتراض مہنگائی پر نہیں بلکہ بیرونی ہدایات پر ہے کیونکہ یہ ایک ایسی وبا ہے جس کی ویکسین نہ کسی کے پاس ہے اور نہ تیار کی جا سکتی ہے اس لیے حکومت جتنی بھی مہنگائی کرناچاہتی ہے‘ شوق سے کر لے لیکن اندرونی ہدایات پر کرے اور مہنگائی اپنے آپ ہی کافی پھل پھول رہی ہے اور اس نے ملک بھر میں ایک رونق لگا رکھی ہے حتیٰ کہ عوام بھی اس سے پوری طرح مانوس ہو چکے ہیں اور کھلے بازوؤں سے اس کا استقبال کر رہے ہیں‘ اس لیے اس میں بیرونی ہدایات پر اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک و قوم کے خلاف سازش ہوئی تو
عمران خان کو جیل میں گھماؤں گا: رانا ثنا
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''ملک و قوم کے خلاف سازش ہوئی توعمران خان کو جیل میں گھماؤں گا‘‘ تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ ہماری جیلوں میں قیدیوں کو ہر قسم کی سہولت میسر ہے مثلاً اُن کے پاس نہ صرف موبائل فون ہوتے ہیں بلکہ وہ اسلحہ بھی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جبکہ باہر سے دیگر سامان کی ترسیل بھی انہیں باقاعدہ جاری رہتی ہے، حتیٰ کہ مٹھی گرم کر کے بھی ہر طرح کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ہفتے ڈیڑھ کے لیے گھر بھی جا سکتے ہیں اس لیے جیل جانے سے نہیں گھبرانا چاہیے‘ بس جیب بھاری ہونی چاہیے۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ میڈیکل کالجز کا دورہ اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
٭...ایک صاحب اوور سپیڈنگ کرتے ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ ایک ٹریفک سارجنٹ نے انہیں روک لیا اور کارروائی کا آغاز کرنے لگا ،جس پر ان صاحب نے کہا کہ میری گاڑی کی ڈِگی میں لاش ہے اور مجھے بہت جلدی ہے‘ مجھے نہ روکو۔ ٹریفک سارجنٹ نے خوفزدہ ہو کر کہا: ڈگی میں لاش؟ فوری طور پر فون پر اس نے اپنے باس کو مطلع کیا جس نے کہا کہ میں پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں؛ چنانچہ وہ آیا اور کار ڈرائیور سے کہا ''ڈگی کھولیے‘‘۔ ڈگی کھولی گئی تو اس میں کچھ بھی نہیں تھا، جس پر اس نے پوچھا: ''وہ لاش کہاں ہے؟‘‘
''کون سی لاش؟‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔
''جس کا ذکر میرے سارجنٹ نے کیا تھا‘‘ باس بولا۔
''اس احمق نے آپ سے یہ بھی کہا ہو گا کہ میں اوورسپیڈنگ کر رہا تھا‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔
٭... ایک خاتون گاڑی پر کہیں جا رہی تھیں کہ اُن کی گاڑی بند ہو گئی۔ وہ نیچے اتر کر انجن کو دیکھنے لگیں کہ سڑک بے حد تنگ ہونے کی وجہ سے عقب سے آنے والی گاڑی کا سوار ہارن پر ہارن دیے چلا جا رہا تھا۔ خاتون نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سٹارٹ نہ ہوئی‘ اس دوران وہ صاحب ہارن پر ہارن دیے جا رہے تھے۔ وہ خاتون اُس شخص کے پاس گئیں اور بولیں:
''پلیز آپ میری گاڑی سٹارٹ کر دیں، آپ کا ہارن میں بجاتی ہوں!‘‘
٭... ایک شرابی پچھلی رات کو بار سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے قریبی تھانے میں فون کیا کہ میں اس وقت فلاں جگہ پر موجود ہوں، کوئی میری گاڑی میں سے سٹیئرنگ، سپیڈو میٹر، بریکیں اور کلچ وغیرہ چرا کر لے گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دوبارہ تھانے فون کیا اور بولا:
''آپ زحمت نہ کریں، میں غلطی سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا!‘‘
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جتنا بھی افسوس کیجیے‘ تھوڑا ہے
مجھ کو میری مضبوطی نے توڑا ہے
جس کو سوچا تھا وہ کر نہیں پائے ہم
جو سوچا ہی نہیں تھا‘ کر کے چھوڑا ہے
دل کے مسافر کی منزل کو جانتا ہوں
سیدھا ہی جا رہا تھا‘ اس کو موڑا ہے
ٹوٹ رہے ناتے کو اور بھی توڑ دیا
جہاں سے ٹوٹا نہیں تھا اُس کو جوڑا ہے
وہ تو دیا ہی نہیں بیان کبھی میں نے
جس کو آپ نے توڑا اور مروڑا ہے
رنگ نہیں بدلا ہے مٹی نے پھر بھی
اس پر ہم نے اپنا لہو نچوڑا ہے
سوئے ہوؤں سے سروکار نہیں میرا کچھ
جاگے ہوؤں کو میں نے آن جھنجھوڑا ہے
یہ تیری دیوار کو بخشا نہیں شرف
کسی چٹان سے ٹکرا کر سر پھوڑا ہے
چلا جہاں سے‘ رکا ہوا ہے وہیں ظفرؔ
یہ جو خود ہی اپنی راہ کا روڑا ہے
آج کا مطلع
بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں
جو ہے کام آج کا کل تک اسے لٹکائے رکھتے ہیں