بجٹ سنگین معاشی بحرانوں سے نکلنے کا نسخہ ہے: وزیراعظم
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بجٹ سنگین معاشی بحرانوں سے نکلنے کا نسخہ ہے‘‘ کیونکہ ہم نسخہ ہی لکھ کر دے سکتے ہیں‘ بازار سے دوا خریدنا مریض کی اپنی مرضی اور استطاعت پر منحصر ہے‘ یہ نسخہ عوام کومفت میں پیش کیا گیا‘ نیز عوام سے درخواست ہے کہ یہ نسخہ سنبھال کر رکھیں تاکہ جب کبھی ان کے پاس دوا خریدنے کے پیسے ہوں تو خرید کر استعمال کر سکیں۔ اب اس سے بڑا ریلیف ہم عوام کو کیا دے سکتے تھے‘ اس لیے اس نسخے کو آزمانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے ذریعے سنگین نہ سہی‘ چھوٹے موٹے بحرانوں سے تو نکلا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
دو ماہ بعد بجلی کے بل سے الیکٹرک
شاک لگے گا: مفتاح اسماعیل
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''دو ماہ بعد بجلی کے بل سے الیکٹرک شاک لگے گا‘‘ جس سے خودکشی کرنے والوں کو سہولت میسر ہوگی جو پہلے اسی مقصد کے لیے بجلی کے تار کو چھوتے تھے تو بجلی چلی جاتی تھی‘ لہٰذا اب بجلی کا تار چھونے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ یہ کام بجلی کا بل ہی کر دیا کرے گا نیز اس سے خودکشی کو سستا کردیا گیا ہے جبکہ اس مقصد کیلئے زہر بھی خریدنا نہیں پڑے گا‘ عوام کے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا ریلیف ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
جون جولائی اہم‘ اپوزیشن میں بیٹھنے
کے لیے بھی تیار ہیں: شیخ رشید
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے: ''جون جولائی اہم، اپوزیشن میں بیٹھنے کیلئے بھی تیار ہیں‘‘ استعفوں والا پروگرام تو ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ اکثر اراکین مستعفی ہونے کے حق میں ہی نہیں، اوپر سے ظلم یہ ہوا ہے کہ مستعفی ہونے والوں کی تنخواہیں بھی بند کر دی گئی ہیں جس سے صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے کہ استعفوں کا یہ کھیل اب مزید جاری نہیں رکھا جا سکتا‘ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ استعفے واپس لیے جائیں کیونکہ اپوزیشن میں بھی اسی صورت بیٹھا جا سکتا ہے‘ نیز یہ حکومت گیدڑ بھبکیوں سے بھی ڈرنے والی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ہم کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کر رہے: پرویز الٰہی
سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے: ''ہم کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کر رہے‘‘ کیونکہ ہم اتنے قلیل رہ گئے ہیں کہ کوئی پارٹی شاید ہمیں قبول کرنے کو بھی تیار نہ ہو‘ ویسے خواہش مند اور دلچسپی رکھنے والی جماعتیں ہم سے رابطہ کر سکتی ہیں اور ہم اُن کی درخواست پر غور بھی کر سکتے ہیں‘ ورنہ ہمارا تو صرف نام ہی باقی رہ گیا ہے کیونکہ اکثر بامعنی لوگ پہلے ہی نواز لیگ میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ بزرگوار چودھری شجاعت صاحب نے تو حد ہی کر دی ہے‘ زعمائے حکومت سے ملاقاتیں کر کے انہیں اپنے مستقل تعاون کا یقین دلا رہے ہیں یعنی چوں کفر از کعبہ بزخیزد کجا ماند مسلمانی۔ آپ اگلے روز غیر ملکی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
لڈو
رال ٹپکانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مٹھائی والا لڈو نہیں ہے بلکہ ہمارے ملازم قاسم کی کنیت ہے جو ملازموں کا سربراہ ہونے کی وجہ سے خود کو خادمِ اعلیٰ سمجھتا اور کہلاتا ہے‘ اسے موقعہ ملے تو کسی پسندیدہ چیز پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی نہیں چُوکتے، انہیں شکایت تھی کہ ایک عرصے سے کالم میں ان کا ذکرِ خیر نہیں آیا جبکہ آج ہم اُن چڑیوں کا ذکر کرنا چاہتے تھے جو ہر صبح ہمیں جگاتی ہیں‘ چونکہ ایک سے زیادہ ہوتی ہیں اس لیے ان کی آوازیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ دن نکلنے پر لالیوں اور ٹٹیری کی آوازیں بھی ان میں شامل ہو جاتی ہیں‘ البتہ مورکی چنگھاڑ سارا مزہ کرکرا کر دیتی ہے جو ہمارے ہمسائے میں کسی نے پال رکھا ہے۔ البتہ رات کو ایک کوئل کی آواز گیدڑوں کی آوازوں میں شامل ہو جاتی ہیں‘ کوئل یہاں پر مستقل قیام پذیر ہے اور دن رات کُوکتی رہتی ہے۔ یار زندہ صحبت باقی۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی یہ نظم
تو آفاق سے قطرہ قطرہ گرتی ہے
سناٹے کے زینے سے
اس دھرتی کے سینے میں
تو تاریخ کے ایوانوں میں در آتی ہے
اور بہا لے جاتی ہے
جذبوں اور ایمانوں کو
میلے دسترخوانوں کو
تو جب بنجر دھرتی کے ماتھے کو بوسہ دیتی ہے
کتنی سوئی آنکھیں کروٹ لیتی ہیں
تو آتی ہے
اور تری آمد کے نم سے
پیاسے برتن بھر جاتے ہیں
تیرے ہاتھ بڑھے آتے ہیں
گدلی نیندیں لے جاتے ہیں
تیری لمبی پوروں سے
دلوں میں گرہیں کھل جاتی ہیں
کالی راتیں دھل جاتی ہیں
تو آتی ہے
پاگل آوازوں کا کیچڑ
سڑکوں پر اڑنے لگتا ہے
تو آتی ہے
اور اڑا لے جاتی ہے
خاموشی کے خیموں کو
اور ہونٹوں کی شاخوں پر
موتی ڈولنے لگتے ہیں
پنچھی بولنے لگتے ہیں
تو جب بند کواڑوں میں اور دلوں پر دستک دیتی ہے
ساری باتیں کہہ جانے کو جی کرتا ہے
تیرے ساتھ ہی
بہہ جانے کو جی کرتا ہے
آج کا مقطع
شعلہ مجبور ہو دریا پہ مچلنے کو ظفرؔ
سی دن دشت سے چشمے کو ابلنا پڑ جائے