مشکل فیصلہ ملک کو تباہی سے بچانے
کے لیے ضروری تھا: وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا مشکل فیصلہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری تھا‘‘ اور اس فیصلے سے ملک کو تو بچا لیا گیا مگر عوام کو تباہی کے سپرد کر دیا گیا ہے جبکہ عوام کافی مطمئن ہیں اور ہماری انہیں جگانے کی اس کوشش کے باوجود انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ ہمارے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے جو کہ بجائے خود سراسر زیادتی ہے کیونکہ مونگ کے علاوہ بھی متعدد دالیں ہیں جو ہمارے سینے پر دلی جا سکتی ہیں اور جن سے کافی ورائٹی بھی پیدا ہو سکتی ہے اور اس طرح دالوں کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز وزیر توانائی مصدق ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ن لیگی کچھ بھی کر لیں، عمران خان کے
ساتھ کھڑا رہوں گا: مونس الٰہی
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری مونس الٰہی نے کہا ہے کہ ''ن لیگی کچھ بھی کر لیں، عمران خان کے ساتھ کھڑا رہوں گا‘‘ البتہ دیکھنا صرف یہ ہے کہ خان صاحب خود کب تک کھڑے رہتے ہیں کیونکہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے کل کلاں ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے؛ تاہم میری نشست پھر بھی خان صاحب کے ساتھ ہی رہے گی جبکہ ہمارے بزرگ چودھری شجاعت حسین خود بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اِدھر اُدھر دل پشوری بھی کر رہے ہیں اور ان کے کسی شوق پر پابندی بھی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ کم سنی اور پیری میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، حتیٰ کہ عام فرق بھی نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔
بجٹ میں عوام کے لیے ریلیف‘ خدمت
کا سفر جاری رہے گا: حمزہ شہباز
وزیراعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''بجٹ میں عوام کے لیے ریلیف، خدمت کا سفر جاری رہے گا‘‘ یعنی خدمت جو سفر کر کے عوام سے دور جا رہی ہے، وہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا، اور یہ جو ہر چوتھے روز تیل اور بجلی کا نرخ بڑھا کر عوام کی خدمت کی جار ہی ہے، یہ اس کے علاوہ ہے اور جب تک عوام موجود ہیں یہ خدمت اور اس کا سفر جاری رہے گا اور اسے ہم ریلیف ہی سمجھتے رہیں گے جبکہ عوام ہونا خود عوام کا قصور ہے کہ وہ امیر گھرانوں میں پیدا کیوں نہیں ہوئے جبکہ غریب گھرانوں میں پیدا ہونے کی شرح بھی زیادہ ہے اور اس میں روز افزوںکیفیت بھی برقرار ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب میں آئین کے ساتھ کھلا
مذاق جاری ہے: یاسمین راشد
سابق صوبائی وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں آئین کے ساتھ کھلا مذاق جاری ہے‘‘ حالانکہ بند مذاق بھی ہوسکتا تھا اور حکومت کو شایدمعلوم ہی نہیں کہ بند مذاق کے اپنے فائدے ہیں کیونکہ اس کا کسی کو پتا ہی نہیں چلتا اور اگر چلتا بھی ہے تو اس وقت‘ جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور اس پر دیرآید درست آید کا فارمولا بھی صحیح نہیں بیٹھ سکتا، نیز اس مذاق کو جاری رکھنا بجائے خود ایک نامناسب بات ہے کیونکہ یہ کام وقفوں وقفوں کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کے طریقے بھی مختلف ہیں، جن کا اس حکومت کو کچھ پتا نہیں حالانکہ یہ ہمیں نااہلی کے طعنے دیتی تھی۔ آپ اگلے روز حماد اظہر اور دیگر پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کر رہی تھیں۔
ہم پچھلی حکومت کے مہنگائی اور بیروزگاری کے
گند کو سمیٹ رہے ہیں: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ہم پچھلی حکومت کے پھیلائے ہوئے مہنگائی اور بیروزگاری کے گند کو سمیٹ رہے ہیں‘‘ کیونکہ ہر طرف پھیلا ہوا گند اچھا نہیں لگتا، اس لیے ہم اسے ایک جگہ اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ کم ازکم یہ منظم لگے جبکہ پھیلی ہوئی چیز کو یکجا اور یکسو کرنا بھی عوامی خدمت ہی ہے جبکہ ہم مہنگائی اور بیروزگاری کے جس گند کو اکٹھا کر رہے ہیں وہ ہماری کوششوں کے باوجود پھیلتا چلا جا رہا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ان دونوں کے گند کو اکٹھا کر کے دو میناروں کی شکل دے دی جائے تاکہ یہ ایک یادگار کے طور پر بھی موجود رہیں اور آنے والی نسلوں کو دعوتِ نظارہ دیتے رہیں اور ہماری کوئی نشانی بھی باقی رہ جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہی تھیں۔
اور، اب آخر میں سدرہ صدف عمران کی نظم:
موت ہماری مادری زبان ہے
یہ تم کن گھروں کو چل پڑے
نہ کوئی سڑک نہ راستا نہ کوئی دل
اس طرف بھٹکتا ہے
کس پتے پر تمہاری یاد بھیجیں گے؟
اس گلی سے تو کوئی پرندہ بھی
گیت گا کر نہیں گزرتا
کسی پھول کا ہنستے ہوئے
اس کوچے کو دیکھنا بھی کفر ہے
ہم کن ہواؤں کے ہاتھ چراغ بہائیں گے
ہمارے دُکھ تو شاخوں پر جل گئے
اور آنکھیں دھویں کی لکیریں بن کر
تمہارا شہر تاک رہی ہیں
وہ شہر جو اچانک ایک رات کھو گیا تھا
کیا سنائیں تمہارے گونگے‘ بہرے مکانوں کو
جو اوندھے ہو کر اور بھی لاپتا ہو گئے
تم کہاں کچھ بدلنے والے تھے
پھر یہ سانسوں کا ریشم‘ جو تاریک
جھاڑیوں سے الجھ کر تار تار ہوا
اس سے کس طرح تمہارا چہرہ بُنیں؟
ہاں! ہم تمہیں آسمان پہ دیکھنے آئیں گے
بات کریں گے اُسی زبان میں
جو موت بن کر رائج ہو رہی ہے
ہاں! ہماری مادری اور قومی زبان
جو ایک ہے
آج کا مقطع
خود سے باہر نکل جاؤں میں اور خود کو ظفرؔ
کوئی دن جنگلوں کی ہوا کے لیے چھوڑ دوں