عوام کو اپنے حقوق کے لیے کمر کس
کر باہر نکلنا ہوگا: عمران اسماعیل
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ ''عوام کو اپنے حقوق کے لیے کمر کس کر باہر نکلنا ہوگا‘‘ اور یہ بے حد ضروری بھی ہے، موقع پر ہر شخص کی کمر کا معائنہ کیا جائے گا کہ وہ کَسی ہوئی ہے یا نہیں! اور جن کی کمر میں ڈھیل ہو گی اُنہیں جلوس سے نکال دیا جائے گا، لہٰذا اس دقت سے بچنے کے لیے ہر شخص کو چاہیے کہ اس سلسلے میں کوتاہی نہ برتے اور جن کی کمر مہنگائی نے توڑ رکھی ہے‘ ان کی کمروں کا کسا ہوا ہونا تو اور بھی ضروری ہے بلکہ وہ تو پہلے ہی کسی ہوئی ہوں گی؛ تاہم کوشش کی جا رہی ہے کہ جن کی کمریں کسی ہوئی نہ ہوں‘ انہیں موقع پر ہی کس دیا جائے تاکہ وہ جلوس میں شریک ہو کر اس کی رونق کو دوبالا کر سکیں۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اتحادی حکومت حل طلب معاملات جلد
خوش اسلوبی سے حل کرے گی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اتحادی حکومت حل طلب معاملات جلد خوش اسلوبی سے حل کرے گی‘‘صرف صدارت کا معاملہ حل طلب رہے گا اور اگر خوش اسلوبی سے نہیں تو اسے بداسلوبی ہی سے حل کر دیا جاتا یا کسی اور کو صدر مملکت بنا کر یہ قضیہ ہی ختم کر دیا جاتا لیکن اس معاملے کو درمیان میں لٹکا رکھا ہے۔ اگر اتحادی حکومت سمجھتی ہے کہ خاکسار کی تعیناتی ملک کے عوام قبول نہیں کریں گے تو اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ یہ تجربہ کر کے دیکھ لیا جائے۔ یقینا عوام کے احتجاج پر اس عہدے سے برطرف کرنے کی آپشن بھی موجود ہے؛ اگرچہ اس کے لیے اسے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی جو حکومت کے پاس نہیں ہے۔ آپ اگلے روز پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
مار بھی ہم کھائیں، دہشت گردی کے
مقدمات بھی ہم پر بنیں: یاسمین راشد
سابق صوبائی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''مار بھی ہم کھائیں، دہشت گردی کے مقدمات بھی ہم پر بنیں‘‘ جو سراسر زیادتی ہے‘ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ یا تو ہمیں مار پیٹ کے لیے وقف کر دیں یا دہشت گردی کے مقدمات کے لیے کیونکہ ہمارے لیے یہ سرا سر پریشانی کا باعث ہے کہ اِدھر مار کھا کر آتے ہیں اور اُدھر ہمارے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ تیار ہوتا ہے جبکہ حکومت کو چاہیے کہ ایک وقت میں ایک ہی کام کرے جس سے اس کا وقت بھی کافی بچے گا اور ہم بھی بے اطمینانی اور پریشانی کا شکار نہیں ہوں گے اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔ آپ اگلے روز عدالت آمد کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
دنیا جان گئی ہے کہ پاکستان میں
ذمہ دار حکومت آ گئی ہے: زبیر انصاری
مسلم لیگ کے رہنما زبیر انصاری نے کہا ہے کہ ''دنیا جان گئی ہے کہ پاکستان میں ذمہ دار حکومت آ گئی ہے‘‘ کیونکہ پہلے تو پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ پاکستان جن خوفناک مسائل میں مبتلا ہے، اس کا اصل ذمہ دار کون ہے جبکہ کسی بات کا ذمہ دار ہونا اور اس کی ذمہ داری قبول کرنا بذاتِ خود ایک دلیرانہ عمل ہے اور اس نے یہ سارا کام بھی پوری جرأت اور دیدہ دلیری کے ساتھ کیا ہے، نیز دنیا اس قدر پیچیدہ مسئلے کے حل ہونے پر مطمئن بھی ہے اور حکومت کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتی ہے کہ حکومت نے اپنا نام ذمہ دار حکومتوں میں سنہری حروف میں لکھوا لیا ہے اور اس پر وہ جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔
توفیق بہ اندازہ ہمت ہے ازل سے
آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
خواب گاہ میں ریت
یہ مبشر سعید کا مجموعۂ غزلیات ہے جسے مخدوم جان لائبریری نڑالی نے شائع کیا ہے۔ انتساب اپنے پیارے لالا حسن نواز شاہ کے نام ہے اور جسے دادی صاحب مرحومہ کی یاد میں شائع کیا گیا ہے۔ دیباچہ معین نظامی کے قلم سے ہے جبکہ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور نامور نقاد شمس الرحمن فاروقی مرحوم کی تحریر ہے جس کے مطابق: یہ بشارت اور سعادت والی غزلیں ہیں۔ سب سے زیادہ یہ کہ ان میں ایک طرح کی مستی اور سرشاری ہے۔ یہ سرشاری حُسن اور عشق‘ دونوں سے عبارت ہے۔ میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے اتنی عمدہ کتاب سے مجھے روشناس کیا۔ کتاب کے آخر میں مختلف ہم عصر شعرا و ادبا کی مختصر تحسینی آرا درج ہیں۔ نمونۂ کلام:
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں‘ ہوکے دکھاؤں تجھ کو
٭......٭......٭
دل بہ دل ہوتے ہوئے در بدری تک آئے
اپنی وحشت کے خدوخال سجانے کے لیے
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی یہ نظم:
قصباتی لڑکی کا گیت
ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی ؍ آنکھوں کے ساتھ ؍ دنوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں ؍ ہم تیرے خوش الحان پرندے ؍ ہر جانب تیری منڈیریں کھوجتے ہیں ؍ ہم نکلے تھے ؍ تیرے ماتھے کے لیے بوسہ ڈھونڈنے ؍ ہم آئیں گے ؍ بوجھل قدموں کے ساتھ ؍ تیرے تاریک حجروں میں پھرنے کے لیے ؍ تیرے سینے پر ؍ اپنی اکتاہٹوں کے پھول بچھانے ؍ سرپھری ہوا کے ساتھ ؍ تیرے خالی چوباروں میں پھرنے کے لیے ؍ تیرے صحنوں سے اٹھتے دھویں کو ؍ اپنی آنکھوں میں بھرنے ؍ تیرے اجلے بچوں کی میلی آستینوں سے ؍ اپنے آنسو پونچھنے ؍ تیری کائی زدہ دیواروں سے ؍ لپٹ جانے کے لیے ؍ ہم آئیں گے ؍ نیند اور بچپن کی خوشبو میں سوئی ہوئی ؍ تیری راتوں کی چھت پر ؍ اجلی چارپائیاں بچھانے ؍ موتیے کے پھولوں سے پرے ؍ اپنی چیختی تنہائیاں اٹھانے ؍ ہم لوٹیں گے تیری جانب ؍ اور دیکھیں گے تیری بوڑھی اینٹوں کو ؍ عمروں کے رت جگوں سے دکھتی آنکھوں کے ساتھ ؍ اونچے نیچے مکانوں میں گھرے ؍ گزشتہ کے گڑھے میں ؍ ایک بار پھر گرنے کے لیے ؍ لمبی تان کر سونے کے لیے ؍ ہم آئیں گے تیرے مضافات میں ؍ مٹی ہونے کے لیے
آج کا مطلع
ویراں تھی رات چاند کا پتھر سیاہ تھا
یا پردۂ نگاہ سراسر سیاہ تھا